window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

مُطالعہ

تعارف

سبق نمبر ایک میں ہم نے یہ بتایا کہ مسیح نئے عہد نامے کی خاص توجہ کا مرکز مسیح ہے۔ دوسرے سبق میں ہم نے چاروں انجیل کا جائزہ لیا کیونکہ اِن میں مسیح کی زمینی زندگی کے بارے میں صحیح انداز میں لِکھا گیا ہے۔ اِس سبق میں ہم مسیح کے اِنسان ہونے پر بات کریں گے۔ ہم بائبل کے اُن حوالوں کو دیکھیں گے جو مسیح کو بطور خُدا پیش کرتے ہیں اور بطور اِنسان بھی۔ پھر ہم مسیح کی زندگی اور خِدمت پر بات کریں گے جب وہ زمین پر تھا۔

مسیح خُدا ہے

بائبل اپنے پڑھنے والوں کے لیے اِس بات کو بہت واضع کرتی ہے کہ مسیح خُدا تھا اور ہے۔ وہ نہ تو کوئی فرِشتہ تھا، نہ کوئی نیم دیوتا اور نہ کوئی بڑا نبی۔ وہ خُدا اور پاک روح سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا۔ مسیح کی الوہیت بائبل کے پیغام کی بُنیاد کا بُنیادی نُقطہ ہے۔ .

الف۔ اپنی الوہیت کے بارے میں مسیح کی عاجزی

فلِپیوں 2 میں، اگرچہ خُدا کی صُورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چِیز نہ سَمجھا۔ ہم مسیح کو اپنی الوہیت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔

ب۔ مسیح کے کام اُس کو اہوہیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

ہم اناجیل میں دیکھتے ہیں کہ جب مسیح کو اُبھارا گیا تو اُس نے اِس بات کو واضع کیا کہ وہ جانتا ہے کہ وہ خُدا ہے۔ مثال کے طور پر مرقس دو باب میں جب مسیح نے ایک اپاہج شخص کے گُناہوں کو مُعاف کیا، تو مذہبی رہنُماؤں نے اُس کو للکارا کہ یہ تو صرف خُدا کرسکتا ہے۔ اُن کے ساتھ بحث کرنے کی بجائے مسیح نے اُن ایک اور کام کیا جو صرف خُدا کرسکتا ہے۔ اُس نے مفلوج کو شِفا دی۔

پ۔ مسیح کا دعویٰ اُس کی الوہیت کی تصدیق ہے۔

اُس نے کُچھ جگہوں پر باپ کے ساتھ ایک ہونے کا دعویٰ کیا۔ صدر عدالت میں اُس کی پیشی کے وقت، اُس نے بغیر کسی غلطی کے خُدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا۔

سَردار کاہِن نے اُس سے کہا میں تُجھے زِندہ خُدا کی قَسم دیتا ہُوں کہ اگر تُو خُدا کا بَیٹا مسِیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یِسُوع نے اُس سے کہا تُونے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے بعد تُم اِبنِ آدم کو قادِرِ مُطلَق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ اِس پر سَردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفر بکا ہے۔ اَب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟ (متی 26 باب 63-65)۔

یسوع پِیلاطُس اور سردار کاہن کے سامنے اپنی الوہیت کا اِنکار کرسکتا تھا اور اُس کی جان بچ سکتی تھی۔ لیکن اُس نے ایسا نہ کیا۔ وہ اِس بات کا اِنکار نہیں کرسکتا تھا کہ وہ خُدا ہے کیونکہ یہ سچ تھا۔ یہ کہنے کے لیے ہمیں بائبل کی بہت سی باتوں کو غلط پڑھنا پڑے گا یا چھوڑنا پڑے گا کہ اناجیل کے مُصنف مسیح کو خُدا نہیں مانتے تھے، یا کہ مسیح نے کبھی خُدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، یا نئے عہد نامے نے مسیح کے خُدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسیح خُدا کا بیٹا تھا اور ہے۔

ت۔ اناجیل مسیح کی الوہیت کی تصدیق کرتی ہیں۔

  1. متی اور لوقا۔ غور کریں کہ متی اور لوقا نے کس طرح اپنی اناجیل کا آغاز کیا۔ اِن میں درج سب نامہ اور پیدائش سے مُتعلق درج کہانیاں اِس چونکا دینے والی حقیقت کے بارے میں بتاتی ہیں کہ مریم جب حاملہ ہوئی اُس وقت وہ کنواری تھی۔ یہ ایک حیران کُن دعویٰ تھا مگر متی اور لوقا بتاتے ہیں کہ یہ ایسا ہی تھا۔ اُنھوں نے اِس کے بارے میں کوئی دفاعی دلیل نہیں دی صرف حقائق بیان کیے۔
  2. مرقس اور یوحنا۔ مرقس نے اپنی انجیل کا آغاز پُرانے عہد نامے کی ایک پیش گوئی سے کیا۔ اُس نے یسعیاہ 40 کا حوالہ دیا اور اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کا، عظیم نبی جو مسیح کی آمد کے بارے میں اعلان کرے گا۔ اور پھر اِس کے بعد وہ کہتا ہے کہ مسیح پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے آیا۔ یوحنا نے بھی اپنی اںجیل کا آغاز مسیح کی پیدائش سے نہیں کیا۔ اُس کا مقصد کیونکہ مسیح کو خُدا کے طور پر پیش کرنا تھا، اُس نے مسیح کے ابدی وجود سے آغاز کیا۔ اُس نے اِس بات کا دعویٰ کیا کہ اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا۔ یہی اِبتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ سب چِیزیں اُس کے وسِیلہ سے پَیدا ہُوئیں اور جو کُچھ پَیدا ہُؤا ہے اُس میں سے کوئی چِیز بھی اُس کے بغَیر پَیدا نہِیں ہُوئی۔ ور کلام مُجّسم ہُؤا اور فضل اور سَچّائی سے معمُور ہوکر ہمارے درمیان رہا۔ آپ اِن چاروں اناجیل کے پہلے باب سے یہ جانے بغیر آگے نہیں جاسکتے کہ جس شخص کے بارے میں وہ لِکھ رہے ہیں وہ خُدا ہے۔
  3. چاروں اناجیل۔ اناجیل کے چاروں مُصنفین نہ صرف اپنے اِبتدائیے میں مسیٰ کی الوہیت کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ اِختتام پر بھی۔ چاروں مُصنفین نے اپنی تحریر کا اِختتام مسیح کی صلیب اور اُس کے جی اُٹھنے سے کیا۔ دُنیا کے سارے مذاہب کی اِبتدا کرنے والے مر گئے۔ لیکن صرف مسیحی ہی ہیں کہ جو اِس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے مذہب کی بُنیاد رکھنے والا جی اُٹھا۔ اناجیل کا آغاز اور اِختتام اِس حیرت انگیز خیال کے ساتھ ہوتا ہے اور اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں کوئی اِبہام نہیں چھوڑتا کہ یہ جو عظیم الشان آدمی جس کے بارے میں وہ تحریر کر رہے ہیں وہ اور کوئی نہیں بلکہ خُدا کا بیٹا ہے۔

اناجیل مسیح کی الوہیت کے حوالوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اِس ابتدائی نصاب میں سارے حوالوں کو شامل نہیں کیا جاسکتا مگر اناجیل کا سرسری جائزہ سارے شکوک کو ختم کرتا ہے کہ مسیح جانتا تھا کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے،اور اناجیل کے مُصنفین نے مسیح کے دعوے کی سچائی پر یقین کیا۔ C.S.LEWIS اپنی کتاب MERE CHRISTIANITY میں ایک خُوبصورت تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ جب سے یسوع نے اپنے بارے میں کہا کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے تو یا تو وہ پاگل اور جھوٹا تھا یا خُدا کا بیٹا۔

ٹ۔ سارا نیا عہد نامہ مسیح کی الوہیت کی تصدیق کرتا ہے۔

نئے عہد نامے کے پیغام کی بُنیاد اِس حقیقت پر ہے کہ مسیح خُدا ہے؛ اور اِس نصاب میں وہ بہت سے حوالے جو مسیح کی الوہیت کے بارے میں موجود ہیں اُن پر غور کرنا مکن نہیں۔ ہم اپنے آپ کو تین حوالوں تک محدود کریں گے اور آپ کو اُبھاریں گے کہ آپ اِن کو غور سے پڑھیں۔

  1. فلِپیوں 2 باب 6 ہمیں سِکھاتا ہے کہ مسیح خُدا کی صورت پر تھا۔ یونانی میں لفظ صورت کا ترجمہ بلکل اصل کی طرح ہونا کیا گیا ہے۔ انگریزی کا لفظ میٹامورفیسز اِسی سے لیا گیا ہے، کہ خُدا ہونے کے لیے میسح کے پاس وہ سب کُچھ تھا جس کی ضرورت تھی۔
  2. کُلسیوں 1 باب 15- 20 میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسیح “ وہ اندیکھے خُدا کی صُورت اور تمام مخلُوقات سے پہلے مَولُود ہے۔ کِیُونکہ اُسی میں سب چِیزیں پَیدا کِیں گئِیں۔ آسمان کی ہوں یا زمِین کی۔ دیکھی ہوں یا اندیکھی۔ تخت ہوں یا رِیاستیں یا حُکُومتیں یا اِختیّارات۔ سب چِیزیں اُسی کے وسِیلہ سے اور اُسی کے واسطے پَیدا ہُوئی ہیں۔ اور وہ سب چِیزوں سے پہلے اور اُسی میں سب چِیزیں قائِم رہتی ہیں۔ اور وُہی بَدَن یعنی کلِیسیا کا سر ہے۔ وُہی مبدا ہے اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلوٹھا تاکہ سب باتوں میں اُس کا اوّل درجہ ہو۔ یُونکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معمُوری اُسی میں سُکُونت کرے۔ ور اُس کے خُون کے سبب سے جو صلِیب پر بہا صُلح کر کے سب چِیزوں کا اُسی کے وسِیلہ سے اپنے ساتھ میل کر لے۔ خواہ وہ زمِین کی ہوں خواہ آسمان کی۔
  3. عبرانیوں 1 باب 1- 4 اِس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ خُدا نے اپنے بیٹے میں کلام کیا “بَیٹے کی معرفت کلام کِیا جِسے اُس نے سب چِیزوں کا وارِث ٹھہرایا اور جِس کے وسِیلہ سے اُس نے عالم بھی پَیدا کِئے”۔ “یہ بتاتا ہے کہ وہ اُس کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہوکر سب چِیزوں کو اپنی قُدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے”۔ عبرانیوں اس بات کی یقین دہانی کرواتی ہے کہ مسیح جو خُدا تھا وہ زمین پر اپنے کام کو ختم کر کے اب آسمان پر ہمارا سردار کاہن ہوتے ہوئے کام کر رہا ہے۔ “وہ گُناہوں کو دھو کر عالمِ بالا پر کِبریا کی دہنی طرف جا بَیٹھا”۔ یہ چھوٹا سا نمونہ ہمیں اِس بات پر قائل کرتا ہے کہ متی سے مُکاشفہ تک نیا عہد نامہ اس بات پر قائم ہے کہ مسیح خُدا ہے۔

دو۔ یسوع اِنسان ہے

جِس طرح سے زمینی خِدمت کے دوران مسیح کی اہوہتی ضروری ہے اُسی طرح اُس کا اِنسان ہونا بھی۔ ہماری جگہ پر جان دینے کے لیے اُس کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ہماری طرح کا ہو۔ وہ ایسا سردار کاہن ہے جو ہماری پریشانیوں کو جانتا ہے اور اُس میں ہماری تسلی کے لیے،اُس کو انسانوں کی طرح دُکھوں کو اُٹھانا تھا۔ اِس لیے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم پورے اعتماد کے ساتھ اُس کی شخصیت اور اُس کی الوہیت پر یقین کریں۔

الف۔ مسیح کے کام اُس کی شخصیت کو ایک اِنسان کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

اَب یہ کہنا کہ مسیح ایک انسان تھا کسی کے لیے کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ لوگوں نے اُس کو چلتے پھرے، کھاتے، پیتے، گُفتگو کرتے دیکھا۔ یوحنا نے اپنے پہلے خط میں اِس بات کی گواہی دی اور بتایا کہ اُس نے کیا دیکھا، سُنا اور اپنے ہاتھوں سے چُھوا۔ مسیح نے نہ صرف اِنسانوں کی طرح اپنی زندگی کو گُزارا بلکہ اُسی طرح مرا بھی۔ مسیح خُداوند نے بھوک، تھکاوٹ، غم جیسے اِنسانی جذبات کا تجربہ کیا۔ عبرانیوں ہمیں سِکھاتا ہے “ اُس نے اپنی بشریّت کے دِنوں میں زور زور سے پُکار کر اور آنسُو بہا بہا کر اُسی سے دُعائیں اور اِلتجائیں کِیں جو اُس کو مَوت سے بَچا سکتا تھا اور خُدا ترسی کے سبب سے اُس کی سُنی گئی۔(عبرانیوں 5 باب 7)

ب۔ کلام مسیح کو ایک اِنسان کے طور پر پیش کرتا ہے

یوحنا نے 1باب 1- 13 آیات میں مسیح کا تعارف خُدا کے کلمے کے طور پر کروایا ہے اور اُس کی الوہیت کو ظاہر کیا۔ اور پھر 14 آیت میں اُس نے دعویٰ کیا “اور کلام مُجّسم ہُؤا اور فضل اور سَچّائی سے معمُور ہوکر ہمارے درمیان رہا”۔ پولُس نے بیان کیا کہ “وہ جو جِسم میں ظاہِر ہُؤا” (1 تیمِتھُیس 3باب 16) اور یہ “لیکِن جب وقت پُورا ہوگیا تو خُدا نے اپنے بَیٹے کو بھیجا جو عَورت سے پَیدا ہُؤا اور شَرِیعَت کے ماتحت پَیدا ہُؤا” (گلتیوں 4 باب 4)۔ یہاں تک کہ جی اُٹھنے کے بعد یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا “میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ مَیں ہی ہُوں۔ مُجھے چھُو کر دیکھو کِیُونکہ رُوح کے گوشت اور ہڈّی نہِیں ہوتی جَیسا مُجھ میں دیکھتے ہو” (لوقا 24 باب 39)۔

مسیح مُکمل طور پر خُدا اور مُکمل اِنسان

پولُس نے کلسیوں کی کلیسیا کی مسیح کے بارے میں پریشانی کو دور کرے کے لیے لِکھا۔ نئے عہد نامے میں کُلسیوں 2باب 9 وہ مقام ہے جہاں پر مسیح کے بارے میں ایک واضع خُلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ اُس نے لِکھا “کِیُونکہ اُلُوہیّت کی ساری معمُوری اُسی میں مُجسّم ہو کر سُکُونت کرتی ہے”۔ اِس کا مطلب ہے کہ خُدا ہونے کے لیے جو کُچھ چاہیے تھا وہ اُس میں تھا “کِیُونکہ اُلُوہیّت کی ساری معمُوری”۔ اور پھر یہی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کس شکل میں موجود ہے۔ وہ نہ تو ہوا ہے، نہ بھاپ اور نہ فرِشتہ۔ “کِیُونکہ اُلُوہیّت کی ساری معمُوری اُسی میں مُجسّم ہو کر سُکُونت کرتی ہے”۔

ہم علمِ اِلہیات کے ایسے معاملات میں داخل ہو رے ہیں جو اِس نصاب کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ لیکن اگر آپ مسیح کی خدمت اور فِطرت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو علم المسیح کے بارے میں ہمارا کورس CUGN ST302 کو دیکھیں جو کہ ہمارے نجات دہندہ کے بارے میں گہرے طور پر بتاتا ہے۔ مسیح کامل انسان اور کامل خُدا تھا۔ وہ الوہیت اور انسانیت کا کامل منبع۔

زمین پر مسیح کی زندگی

الف۔ اُس کی زندگی کا جائزہ

مسیح کی زندگی کیسی تھی؟ اُس کی پیدائش کو بہت توجہ مِلی۔ نبیوں نے اِس کے بارے میں لِکھا، اور فرشتے، مجوسی، چرواہے، بادشاہ اور ایک کنواری جس سے ایک بچہ پیدا ہوا اِس کہانی کا حصہ ہے۔ حیرت انگیز۔ مسیح کے بچپن کے بارے میں جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ بارہ سال کا تھا اور وہ شریعت کے عالموں کو سِکھا رہا تھا، اور وہ قدوقامت میں خُدا اور اِنسان میں بڑھتا رہا۔ جب وہ تیس سال کا تھا تو اُس نے خِدمت کا آغاز کیا (اور تین سال تک رہی)، اور اِسی پر اناجیل کا زیادہ دھیان ہے۔ اُس کو ایک غیر قانونی مُقدمے کے بعد صلیب دے دیا گیا۔ لیکن تین دن کے بعد وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور چالیس دِن تک اپنے آپ کو ظاہر کرنےکے بعد اُس کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔

ب۔ مسیح کی خِدمت کی تاریخ اور جُغرافیہ

جب اناجیل کو پڑھتے ہیں تو یہ مدد کرتی ہیں کہ یہ سب کب اور کہاں ہوا۔ اُس کی خِدمت کا آغاز گلیل سے ہواجہاں پر وہ کُچھ مہینے رہا۔ اُس کا پہلا معجزہ قاناہ گلیل میں ایک شادی میں تھا جہاں پر اُس نے پانی کو مے میں بدل دیا۔

پھروہ جنوب کو گیا، یروشلم سے ستر میل، جو کہ یہودیہ ہے، ہیکل میں فسح منانے۔ وہ وہاں پر کافی مہینے رہا اور پھر واپس گلیل کا آگیا۔ واپسی پر وہ سامریہ میں ایک کنوئے پر ُرکا، ایک ایسا عِلاقہ جو یہودیہ اور گلیل کے درمیان میں تھا، اور سامری عورت کے ساتھ مشہور مُکالمہ کیا۔

مسیح گلیل میں تقریباََ اٹھارہ مہینے رہا۔ اِسی دوران اُس نے پہاڑی وعظ کیا اور شاگردوں کا چُناؤ کیا۔ اِس دور کا اِختتام اُس وقت ہوا جب یہودی مذہبی رہنُاؤں نے اُس کو بادشاہ ماننے سے اِنکار کیا۔ وہ مسیح کے معجزات کا اِنکار نہیں کر سکتے تھے کیونکہ بہت سے لوگ اُس کے گواہ تھے اور بہت نے شفا پائی۔ اُس کو ماننے کی بجائے اُنہوں نے یہ کہا کہ اُس کا باپ شیطان ہے اور اُس کی قوت کی مدد سے وہ یہ معجزات کر رہا ہے۔ اُنہوں نے توہین کی حد کو پار کر لیا اور مسیح غیر قوموں کی طرف چلے گئے۔

مسیح نے تقریباََ چھ ماہ دکُپلس اور فینیکے مین غیر قوموں میں خِدمت کی، جہاں پر اُس نے بہت سے معجزے کیے۔ پھر وہ اپنی خدمت کے باقی وقت میں یہودی سرحدوں کو لوٹ آیا۔ جب آپ اِن جُغرافیائی ناموں کو اناجیل میں دیکھیں گے،تو نقشے میں دیکھتے ہوئے آپ کو آسانی ہو گی اور آپ کو پتا چلے گا کہ مسیح نے اِن جگہوں پر کون سے کام کے۔

پ۔ پاک ہفتے پر دھیان

مسیح کی زندگی کے آخری ہفتے کو پاک ہفتہ کہتے ہیں۔ اِس کا آغاز مسیح کا اپنے شاگردوں کے ساتھ یروشلم میں داخلے سے ہوتا ہے جب لوگوں نے اُس کو بادشاہ مانا۔ لیکن جُمعے کو اُنہوں نے اُس کو مصلوب کردیا۔ تین دن بعد اِتوار کی صُبح وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اِس دور کو جو یروشلم میں داخلے سے مصلوبیت تک ہے اِس کو پاک ہفتہ کہتے ہیں۔

متی کی انجیل کے 25 فیصد حصے کا دھیان اِس آخری ہفتے پر ہے۔ مرقس میں 30 فیصد، لوقا میں 20 فیصد اور یوحنا میں 42 فیصد۔ مسیح اِس دُنیا میں تینتیس سال رہے، لیکن اِس آخری ہفتے کو جتنی جگہ دی گئی ہے اِس بات کی تصدیق ہے کہ یسوع کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔ مسیح نے جِتنی باتیں کہیں اور کیں اہم ہیں۔ مسیح جیسا تھا اُس نے اُسی طرح اپنے آپ کو قُربان اور سر بُلند ہونے کے لیے پیش کیا۔ یہ اور کوئی نہیں بلکہ خُدا کا بیٹا تھا جو میرے اور آپ کے لیے قربان ہوا۔

نتیجہ

مسیح کی زمینی زندگی کا آخری دور اُس کے جی اُٹھنے کے بعد کا ہے۔ اعمال 1 باب 3 میں لوقا ہمیں بتاتا ہے “اُس نے دُکھ سہنے کے بعد بہُت سے ثبُوتوں سے اپنے آپ کو اُن پر زِندہ ظاہِر بھی کِیا۔ چُنانچہ وہ چالِیس دِن تک اُنہِیں نظر آتا اور خُدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا”۔ مسیح کے بارے میں جو ایک حقیقی سچ ہے وہ یہ ہے کہ وہ آج بھی اپنے لوگوں کی زندگیوں میں زندہ اور کام کرتا ہے۔ ایک گیت بیان کرتا ہے “میں ایک جی اُٹھے نجات دہندہ کی خِدمت کرتا ہوں، وہ آج بھی دُنیا میں موجود ہے، میں جانتا ہوں کہ وہ زندہ ہے،دُنیا کُچھ بھی کہے”پولُس نے اِس بات کا اعلان کیا، “اور اگر مسِیح نہِیں جی اُٹھا تو تُمہارا اِیمان بےفائِدہ ہے تُم اَب تک اپنے گُناہوں میں گِرفتار ہو۔ بلکہ جو مسِیح میں سو گئے ہیں وہ بھی ہلاک ہُوئے۔ اگر ہم صِرف اِسی زِندگی میں مسِیح میں اُمِید رکھتے ہیں تو سب آدمِیوں سے زِیادہ بدنصِیب ہیں”۔ (پہلا کُرنتھِیوں 15 باب 17-19)۔

لیکن پولُس ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ مسیح زندہ ہے اور مسیح میں ہماری اُمید اِس زندگی تک محدود نہیں ہے۔ یہابدی اُمید ہے۔ تواُس کے پیروکار سب ایسے نہیں ہیں کہ اُ ن پرترس کھایا جائے۔ کیونکہ ہماری اُمید زندہ خُدا میں ہے جس نے ثابت کیا کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے۔