window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

مُطالعہ

تعارف

مسیح کی خِدمت تین سال پر مُحیط تھی اور یہ حیران کُن تعلیم اور واقعات سے بھری ہے۔ جب لوگ مسیح کے بارے میں سوچتے ہیں تو بہت سے لوگوں کے ذہن میں اُس کے معجزات اور تمثیلیں آتی ہیں۔ کیونکہ یہ اُس کی تعلیمکا ایک بہت بڑا حصہ ہے اِس لیے ہم اِس سبق میں اِن پر دھیان دیں گے۔ کیونکہ اُس کے تعلقات اور گُفتگو اُس کی خِدمت کا ایک بڑا حصہ ہیں اِس لیے ہم اِس پر بھی غور کریں گے۔ مسیح کی تمثیلوں نے لوگوں کے دِلوں کو موہ لیا اور اُس کے معجزات نے اِس بات کا اِظہار کیا کہ اُسکے پاس شِفا دینے کی طاقت ہے۔ لیکن وہ ایک اُستاد اور معجزات کرنے والے سے زیادہ بڑھ کر تھا۔ وہ ایک دوست تھا۔ وہ کنوئے کے پاس بیٹھا اور ایک پریشان عورت سے بات کی۔ اُس نے پطرس کےاِنکار کے باوجود مُحبت کے ساتھ اُس کو مُعاف کیا۔ وہ ایک حقیقی اِنسان تھا اور وہ اِنسانوں کا خیال کرتا تھا۔ اُس نے گُفتگو اور دوستی کے وسیلے بھی اُتنی قُدرت کے ساتھ ہی مُنادی کی جتنی وہ معجزات اور تمثیلوں کے ذریعے کرتا تھا۔

یک۔ مسیح کے معجزات

الف۔ “معجزے” کی تعریف

سب سے پہلے مسیح کے معجزات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہم معجزے کو خُدا کا کام کہ کر بیان کرتے ہیں جو فطرت کی طاقت پر سبقت لے جا کر

  1. خُدا کا کام۔ صرف خُدا معجزات کرتا ہے، لوگ نہیں۔ میرےاور آپ کے پاس طاقت نہیں کہ ہم معجزات کرسکیں۔ صرف ایک انسان جو مسیح تھا اُس نے معجزات کیے۔ صرف خُدا معجزا کرسکتا ہے۔ پطرس اور یوحنا اور دوسرے لوگوں نے جب معجزے کیے تو اُنھوں نے یہ کہا کہ وہ نہیں بلکہ خُدا اُن کے وسیلے یہ کرتا ہے اور اُنھوں نے اُن معجزات کو خُدا کے ساتھ منسوب کیا۔ ایک بات جو مسیح کو علیحدہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اُس کے معجزات اِس بات کا ثبوت تھے کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے۔
  2. فطرت کے قانون سے ہٹ کر۔ معجزات کی ایک اور تعریف اِس طرح بیان کرتی ہے، کہ معجزات فطرت کے قوانین کو پار کر جاتے ہیں۔ یہ مافوق الفطرت واقعات ہیں۔ ہمارے لیے یہ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن خُدا کے لیے یہ عام سی بات ہے جس نے فطرت اور اِس کے قانون کو بنایا ہے۔ یہ ہمارے لیے مافوق الفطرت ہیں لیکن خُدا کے لیے یہ ایک عام سی بات ہے۔ مسیح نے پانی پر چل کر کشش ثقل کے قانون کو مات دی۔ مسیح نے جب پانی کو مے میں بدل کر وقت اور کیمیائی طاقت کو شِکست دی۔ اِس کام کے لیے ایک کیمیائی عمل اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسیح نے پانی کو مے میں بدل کر فطرت کے قانون کو ایک شِکست دی۔
  3. سچائی کو ظاہر کرنے کے لے کیے گئے۔ معجزے کی تعریف کا تیسرا حصہ بتاتا ہے کہ معجزات سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اِن معجزات سے مسیح نے یہ ثابت کیا کہ وہ خُداکا بیٹا ہے اور گُناہوں سے معافی کی اُسکی دعوت حقیقی ہے۔ اُس نے تکلیف میں مُبتلا لوگوں کی مدد کر کے اِس بات کو ظاہر کیا کہ اُس کو اُن کا کِتنا خیال ہے۔ وہ اُن کی تکلیفوں کو نظر انداز بھی کر سکتا تھا مگر اُس نے اُن کو بتایا کہ وہ اُن کا کِتنا خیال کرتا ہے۔ مسیح بیماروں کو شِفا دینے اور بھیڑ کو کھانا کھِلانے سے بھی بڑا کام کرنے آیا تھا۔ وہ اِنسان کی روح کے ایک بڑے گہرے زخم کو شِفا بخشنے کے لیے آیا تھا۔

ب۔ مسیح کے معجزات کے بارے میں یوحنا کی تحریر۔

  1. معجزات ایک نشان کے طور پر۔ اناجیل میں تقریباََ تیس معجزات تحریر کیے گئے ہیں۔ متی میں بیس، مرقس میں اٹھارہ، اور لوقا میں بھی بیس ہیں۔ یوحنا میں صرف سات معجزات تحریر ہیں، اور اِس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ دوسرے مُصنفین کی طرح اُس نے اِن پر توجہ نہیں دی۔ اِس کا مُتضاد صحیح ہے۔ یوحنا نے کہا کہ اُس نے اِس اِنجیل کو اِس لیے لِکھا کہ ہم اِس بات کا یقین کر سکیں کہ یسوع مسیحا اور خُدا کا بیٹا ہے۔ اور اُس کی تحریر کا ڈھانچہ اِن سات معجزات پر قائم ہے۔ اور اُس نے مسیح کے معجزات کے لیے ایک خاص لفظ کا بھی چُناؤ کیا جس کا مطلب ہے نشان۔ اِس لفظ کا مطلب ہے ثبوت جو کہ لوگ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ یوحنا نے اِن نشانوں یا ثبوتوں کو اِس لیے پیش کیا کہ وہ اِس بات کو ثابت کر سکے کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے۔.
  2. معجزات اور پیغامات۔ کیونکہ یوحنا نے معجزات کو ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا، اِس لیے اُس نے مسیح کی تعلیم کو اِن معجزات کو بیان کرنے کے لے اِستعمال کیا۔ مِثال کے طور پر، یوحنا نے پانچ ہزار لوگوں کو کھانا کِھلانے کے معجزے کے بعد مسیح کی اِس بات کو تحریر کیا کہ زنددگی کی روٹی میں ہوں (یوحنا 6)۔ اُس نے ہمیں دِیکھایا کہ مسیح نہ صرف ہماری جسمانی بھوک کو مِٹا سکتا ہے بلکہ اِس بھی بڑھ کر اُن گہری بھوک جو روحانی ہے اُس کو بھی مِٹا سکتا ہے۔ خُدا نے ہم کو بھوک کے ساتھ پیدا کیا ہے جس کو صرف مسیح ہی مِٹا سکتا ہے۔
  3. مسیح کا ایک حیرت انگیز دعوت نامہ۔ یوحنا نے مسیح کے معجزات کے بارے میں اُس کے دو اہم بیانات کو تحریر کیا ہے۔ یہودی اُس کے خُدا ہونے کو دعوے سے اِنکار کر رہے تھے اور اِس پر اُس نے کہا، “پَس یہُودِیوں نے اُس کے گِرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دِل کو ڈانوانڈول رکھّے گا؟اگر تُو مسِیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔ یِسُوع نے اُنہِیں جواب دِیا کہ مَیں نے تو تُم سے کہہ دِیا مگر تُم یقِین نہِیں کرتے۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہُوں وُہی میرے گواہ ہیں۔ لیکِن تُم اِس لِئے یقِین نہِیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہِیں ہو”(یوحنا 10: 24 -26)۔ یسوع نے کہا کہ اُس کے معجزات اِس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ خُدا اُس کا باپ ہے۔

وہ اب بھی مُتفق نہیں تھے، اور یہودی اُس کو پتھر مارنے کے لیے تیار ہوگئے، مسیح نے جواب دیا، “یِسُوع نے اُنہِیں جواب دِیا کہ مَیں نے تُم کو باپ کی طرف سے بہُتیرے اچھّے کام دِکھائے ہیں۔ اُن میں سے کِس کام کے سبب سے مُجھے سنگسار کرتے ہو”؟ (یوحنا 10 باب 32)۔ یسوع نے اپنے دعوے کو دُہرایا کہ اُس نے معجزات اِس لیے کیے کیونکہ وہ خُدا کا بیٹا ہے۔ مزید بحث کے بعد یسوع نے کہا “ آیا تُم اُس شَخص سے جِسے باپ نے مُقدّس کر کے دُنیا میں بھیجا کہتے ہوکہ تُو کُفر بکتا ہے اِس لِئے کہ مَیں نے کہا مَیں خُدا کا بَیٹا ہُوں؟ (یوحنا 10 باب 36)۔

پھر اُس نے ایمان اور معجزات کے بارے اُن کو ایک حیرت انگیز چیلنج دیا: “اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہِیں کرتا تو میرا یقِین نہ کرو۔ لیکِن اگر مَیں کرتا ہُوں تو گو میرا یقِین نہ کرو مگر اُن کاموں کا تو یقِین کرو تاکہ تُم جانو اور سَمَجھو کہ باپ مُجھ میں ہے اور مَیں باپ میں” (یوحنا 10 باب 37 -38)۔

یسوع نے اُن کو کہا کہ صرف اِس لیے اُس کا یقین نہ کریں کہ اُس نے یہ کہا کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے بلکہ اِس لیے کہ جو وہ کرتا ہے وہ صرف باپ کر سکتاہے۔ “اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہِیں کرتا تو میرا یقِین نہ کرو۔ لیکِن اگر مَیں کرتا ہُوں تو گو میرا یقِین نہ کرو مگر اُن کاموں کا تو یقِین کرو تاکہ تُم جانو اور سَمَجھو کہ باپ مُجھ میں ہے اور مَیں باپ میں”۔ مسیح نے اُن کو ایسا ثبوت دیا جس کو جُھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔ جو اُس نے معجزات کی صورت میں اپنے اِلہٰی ہونے کے بارے میں پیش کیا۔

مسیح کی تمثیلیں

الف۔ تمثیل کی تعریف

مسیح کی خِدمت کا ایک اور بڑا پہلو اُس کی تمثیلیں ہیں۔ تمثیل ایک فرضی کہانی ہوتی ہے جس کو اِس طرح سے بتایا جاتا ہے کہ یہ حقیقت میں ہوا ہو گا۔ افسانے اور تمثیل میں یہی فرق ہے۔ اگر آپ ایسوپ کے افسانے پڑھیں تو آپ اِس بات سے نہیں ڈریں گے کہ آپ کو سڑک پر جاتے ہوئے ایک آنکھ والا دیو مِلے گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک آنکھ والا دیو ایک فرضی افسانے میں ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن تمثیل ایک ایسی فرضی کہانی ہوتی ہے جو کہ ہوسکتا ہے حقیقت ہو۔

ب۔ تمثیل کی طاقت

مسیح نے تمثیلوں کا اِستعمال ایک خاص مقصد کے لیے کیا۔ فریڈ نام کا کوئی بھی نیک سامری نہیں تھا۔ بِلی نام کا کوئی بھی مُصرف بیٹا نہیں تھا۔ مسیح نے نیک سامری کی تمثیل اِس لیے بتائی کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی نیک سامری کی طرح بنیں۔ اُس نے مُصرف بیٹے کی تمثیل اِس لیے سُنائی کیونکہ وہ چاہتا یہ بتانا چاہتا تھا کہ خُدا ہر مُصرف بیٹے کی بحالی سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ اگر مسیح حقیقت میں کسی بِلی نام شخص کی کہانی سُناتا تو لوگ کہتے کہ میں اُس کو جانتا ہوں۔ بُرا شخص ہے۔ اچھا ہے کہ میں اُس کی طرح نہیں ہوں۔ مسیح نے اُن کہانیوں کو اِس طرح بنایا کہ ہم اُن کہانیوں کا حِصہ بن جائیں ہم نیک سامری اور معاف کیے گئے مُصرف بیٹے۔

پ۔ مسیح نے کب تمثیل بتائی؟

مسیح نے اپنی خِدمت کے دوسرے سال میں تمثیلیں بتانا شُروع کیں جب مذہبی رہنُماؤں نے اُس کو واضع طور پر اپنا بادشاہ ماننے سے اِنکار کیا تھا۔ متی 12 کے واقعے کے بعد مسیح نے پہلی تمثیل بتائی، بیج بونے والے کی کہانی، جو کہ متی 13، مرقس 4 اور لوقا 8 میں بھی درج ہے۔ یہ ایسی تمثیل ہے جس کو تینوں نحوی انا جیل میں تحریر کیا گیا ہے۔ جب مسیح یہ تمثیل بتا چُکے تو شاگردوں نے اُس سے کہا، “ تو اُن سے تمثیلوں میں بات کیوں کرتا ہے”(متی 13 باب 10)۔

“پ۔ مسیح نے کیوں تمثیلیں بتائیں۔“

“اور اُس نے جواب دیا۔ “”اُس نے جواب میں اُن سے کہا اِس لِئے کہ تُم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سَمَجھ دی گئی ہے مگر اُن کو نہِیں دی گئی۔ کِیُونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور اُس کے پاس زیادہ ہوجائے گا اور جِس کے پاس نہِیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے۔
میں اُن سے تِمثیلوں میں اِس لِئے باتیں کرتا ہُوں کہ وہ دیکھتے ہُوئے نہِیں دیکھتے اور سُنتے ہُوئے نہِیں سُنتے اور نہِیں سَمَجھتے”” (متی 13: 11- 13)۔”

“””ہے”” اور نہیں “”ہے”” کے بارے میں مسیح کی وضاحت اُس کی تعلیمات کے بارے میں بتاتی ہے۔
مسیح نے تمثیل کا اِستعمال اُن کے لیے کیا جو سچائی کو جاننا چاہتے تھے اور اُن سے چُھپانے کے لیے کیا جو اِس کو رِد کرتے یا مذاق اُڑاتے تھے۔ پہاڑی واعظ پر دی گئی مسیح کی اپنی ہدایت یہاں پر نظر آتی ہے کہ ہدایت اور سچائی کے موتی سوورں کے آگے نہ پھینکیں۔” جو خُدا کی روحانی سچائی کو سُننا چاہتے ہیں سُنیں۔ جو نہیں سُننا چاہتے اُن کے لیے یہ ایک اچھی کہانی ہے۔

ت۔ تمثیل کو سمجھنا

کیونکہ تمثیل میں ایک سچائی چُھپی ہے جو کہانی کی مانند ہے، ہمیں یہ جاننا ہے کہ ہم نے کس طرح سے اِس کو پڑھنا ہے۔ تمثیل کے مطلب کو سمجھنے کے لیے مہارت کی ضرورت ہے۔ مسیح کی تمثیلوں کو سمجھنے کے لیے تین تجاویز ہماری مدد کریں گی۔

  1. پہلے ہم کہانی اور اِس کے پیغام کو علیحدہ کریں۔ ہمیں کہانی کے پیغام سے پہلے اِس کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم کہانی کے لوگوں کو شناخت کریں اور اِس کو بات کو جانیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ تب ہے ہم جان سکتے ہیں کہ مسیح اِس سے کیا سِکھانا چاہتا ہے۔ مسیح نے ہر کہانی کو اِس طرح سے بنایا کہ اُس کے کردار اور اُن کے کام سُننے والوں کی زندگیوں کی نُمائندگی کریں۔ جب تک یہ کہانی واضع نہیں ہو گی ہم نہیں جان سکتے کہ یہ زندگی کے بارے میں کیا سِکھانی چاہتی ہے۔ یہ تفریح یا رات کو سونے سے پہلے والی کہانیاں نہیں تھیں۔ یہ تعلیم تھی۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی کہ اگر ہم کہانی کو پڑھ کر اپنا مطلب اخذ کر لیں اور مسیح کے پیغام کو نہ جانیں۔
  2. ہمیں تمثیل کو اِس کے سیاق و سباق میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسیح نے ہر ایک تمثیل کسی مقصد کے لیے بتائی، اور ہمیں یہ وجہ سیاق و سباق میں ملتی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمثیل لے کردار سیاق و سباق کے کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔ مُصرف بیٹے کی تمثیل میں اگر ہم تمثیل کے کرداروں کا موازنہ تمثیل کے سیاق و سباق سے نہیں کرتے تو تمثیل ایک تمثیل کے طور پر ناکام ہو جاتی ہے۔ اِس کا مقصد اِس کے سیاق و سباق کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔
  3. ہمیں تمثیل کے نُقطے کے دائرے اور شِدت کو ضرور بیان کرنا چاہیے۔ اگر ہم سطحی طور پر اِس کو جانیں گے تو ہم مسیح کی اہم تعلیم کونہیں جان پائیں گے۔ مثال کے طور پر مسیح نے ہم کو بتایا ہے کہ اُس کا شاگرِد ہونے کی کیا قیمت ہے اور لوقا 14 میں تمثیل کے ذریعے ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہے جس نے قیمت کا اندازہ کیے بغیر عمارت بنانا چاہی ہو۔ اِس تمثیل کو پڑھ کر اِس کا جو نتیجہ ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کہ رہے تھے کہ چھلانگ مارنے سے پہلے جانچ کر لینی چاہیے۔ یہ اِس بات کو سیکھاتا ہے کہ اُس کا شاگِرد بننے کے لیے اقرار کرنا ہے یا اِنکار۔ اِس لیے ہمیں دُعا کے ذریعے سے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ مسیح اِن ساری تمثیلوں میں کیا سِکھا رہا تھا۔

مسیح کے تعلُقات اور گُفتگُو

رسول، شاگِرد، اور دوست

مسیح کے معجزات اور تمثیلوں کو لوگ اُس کی خِدمت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ لیکن مسیح نے تعلقات کے ذریعے بھی مُنادی کی۔ اٗس نے بہت سے شاگردوں میں سے بارہ کو اَپنے رسول ہونے کے لیے چُن لیا۔ شاگرد کا مطلب ہے کسی سے تعلیم حاصل کرنے والا یا کسی کا پیروکار۔ وہ سب جنہوں نے مسیح کی تعلیم کو سُنا یا اُس کی پیروی کی تو اُن سب کو بعض اوقات شاگرد کہا گیا۔ لوقا کی انجیل بتاتی ہے کہ مسیح نے اپنے شاگردوں کو بُلایا اور اُن کو رسول کو رسول کہا۔ مسیح کے بہت سے شاگردوں میں سے یہ اُس کےقریبی ساتھی تھے اور مسیح نے اِنھی کے ساتھ زیادہ وقت گُزارا۔ اُنھوں نے اِکٹھے خِدمت کی۔ اُنھوں نے اِکٹھے سفر کیا، کھانا کھایا، خوش ہوئے، اور گُفتگو کی۔ وہ اُس کے قریبی ساتھ اور دوست تھے۔ مصلوب ہونے سے پہلے اُس نے اُن کو ساتھ آخری فسح کھایا۔ اِن بارمیں اُس کے بہت ہی قریبی، پطرس، یعقوب اور یوحنا بھی شامل تھے۔

ب۔ غیرمعمولی دوست

میسح کی مُحبت میں مریم اور مرتھا کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اُس نے اُن کو شاگرد نہیں کہا، لیکن وہ شاگرد تھے۔ وہ اِس سے بھی بڑھ کر تھے۔ وہ قریبی دوست تھے۔ یہ بہت ہی دِلچسپ بات ہے کہ مسیح کےقریبی دوستوں میں دو عورتیں شامل تھیں۔ مسیح کے دور میں ایک مذہبی رہنُما کے لیے یہ کوئی عام بات نہیں تھی۔

پ۔ گُفتگو

مسیح نے گُفتگو کے ذریعے بھی خِدمت کی۔ یوحنا 3 میں ایک مذہبی رہنُما نیکو دیمس کی مسیح کے ساتھ مُلاقات درج ہے۔ یوحنا 4 مسیح کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ کنوئے پر دِن کی گرمی میں بیٹھا تھا اور ایک سامری اور گُنہگار عورت کے ساتھ گُفتگو کی: تین وجوہات جن کی بِنا پر مسیح کو اُس کے ساتھ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اُس نے سماجی رسومات کو توڑا اور وہ کیا جو وہ کرنے کے لیے آیا تھا۔ وہ کہ سکتا تھا اِس عورت کو دیکھو؟ یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میں دُنیا میں آیا۔ میرے سامریہ میں آنے کی وجہ یہ ہے۔ میں اپنے اِس نئے دوست کی طرح لوگوں کو ڈھونڈنے اور بچانے آیا ہوں۔ جب آپ مسیح کی زندگی کو پڑھیں تو آپ اُس کی گُفتگو کو کبھی نظرا نداز نہ کریں۔ یہ مسیح کے تعلق کی ایک ایسی سمت کو سامنے لے کر آتی ہے جس کو کہ ہم کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔

نتیجہ

مسیح نے تمثیلوں میں تعلیم دی تاکہ ہم اپنے آپ کو اِس بامعنی تعلیم میں دیکھ سکیں۔ اُس نے معجزات کیے کیونکہ وہ ہمارے حالات کو جانتا ہے اور اِن کے بارے میں کُچھ کر سکتا ہے۔ لیکن اِس بہترین اُستاد اور طاقتور معجزات کرنے والے نے دوست بنانے کے لیے وقت نِکالا،اور وہ کمزوروں کے لیے گُفتگو کرنے کے لیے بااعتماد تھا۔ ہم اُس کی پرستش کرنے کی وجہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایک خیال رکھنے والے دوست کے تعلق سے اُس کو مُحبت کرنا بھی ضروری ہے۔