window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

لیکچر

تعارُف

اس سبق میں ہم پُرانے عہد نامے کے اندر موجود حِکمت کے بارے میں علم کا تعارف کروائیں گے۔ جب ہم اِن کتابوں کو حکمت کی کتابیں کہتے ہیں تو ہمیں اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سارے پُرانے عہدنامے اور نئےعہدنامے میں حکمت موجود ہے۔ پیدائش سے ملاکی اور متی سے مُکاشفہ میں مُصنفین یہ پیغام دیتے ہیں کہ خُدا کا خوف علم کا شُروع ہے۔ لیکن ایوب، امثال اور واعظ کی کتابیں حکمت پر بُہت زیادہ غوروفکر کرتی ہیں اس لیے اِن کو حکمت کا علم کہا جاتا ہے۔ پُرانے عہد نامے کے دانش مندوں کے ذہن میں حکمت سے مُتعلق کوئی خاص حقیقت تھی اور اگر ہم اُس حقیقت کو جان نہیں پاتے تو پھرقیمتی رائے کو جان نہیں سکتے۔

حکمت کے بارے میں عبرانی خیال

بائبل میں عبرانی لفظ چوکم کا انگریزی ترجمہ حکمت ہے۔ پورے پُرانے عہد نامے میں یہ اُن لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا جنہوں نے جو بھی کام کیا اُس کو مہارت کے ساتھ کیا۔ یہ اُن لوگوں کے کام کو بیان کرتا ہے جنہوں نے خروج کی کتاب میں کاہنوں کی پوشاک پر گُل کاری کی۔ اِن کپڑوں کا خُوبصورت ہونا اس لیے ضروری تھا کیونکہ یہ خُدا کی فِطرت اور کام کو ظاہر کرتے تھے۔ تو خُدا نے موسیٰ کو بتایا ایسے لوگوں کا چُناؤ کرو جو چوکم سے گُل کاری کا کام کریں۔ اُنہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ کام کیا۔ دوسرے لوگ جنہوں نے کاہن کے لباس کو دیکھا ہوگا تو اُنھوں نے بھی تعریف کی ہوگی۔ میں بھی گُل کاری کر سکتا ہوں مگر ویسی نہیں۔ یہ وہ مہارت ہے جس کے لیے میں صرف سوچ ہے سکتا ہوں۔ ماہر بڑھئی اور رہنُماؤں کو کہا گیا کہ چاکم کے ساتھ کام کریں۔

امثال کی کتاب میں ہم لفظ حکمت کو بار بار دیکھتے ہیں۔ اسکو اس لیے استعمال کیا گیا تاکہ اس بات کو بیان کیا جاسکے کہ لوگوں نے زندگی میں کتنی مہارت سے کام کیا۔ لیکن جب یہ امثال لوگوں کا حوالہ دیتی ہے تو یہ بتاتی ہے کہ لوگوں نے چاکم سے کام کیا۔ لوگ کاہن کے لباس کو دیکھ کر یہ کہتے ہوں گے کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور وہ زندگی جو حکمت سے گُزاری ہو اُس کے لیے بھی یہی کہا جاتا ہو گا کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ جو شخص اپنی زندگی کو چوکم سے گُزارتا ہے وہ دانش مند ہے۔ دانش مند لوگ جیسے خُدا چاہتا ہے ویسے ہے زندگی کو گُزارتا ہے۔

پُُرانے عہد نامے میں دانش مند زندگی کے لیے خُدا کے قانون کے تابع رہنا ضروری ہے۔ تو جب آپ ایوب، امثال اور واعظ کو پڑھتے ہیں تو یہ اُن لوگوں کا حوالہ دیتی ہیں جِنہوں نے مہارت کے ساتھ اپنی زندگیوں کو خُدا کے قوانین کے مُطابق گُزارا۔ اسی لیے تو امثال ا باب ٧ اور ٩ باب ١٠دعویٰ کرتی ہیں “ خداوند کا خوف علم کا شروع ہے” لیکن یہ تب ہی ہے جب ہم خُدا کو جیسا وہ ہے ویسے سمجھیں اور اُس کے مُطابق اپنی زندگی کو گُزاریں، کیا ہماری زندگی میں ایسی اُمید ہے کہ ہم حکمت کے ساتھ اپنی زندگی گُزاریں۔

امثال

امثال کی کتاب بنیادی طور پر اقوالِ زریں کا مجموعہ ہے۔ اِن میں بڑی تعداد کو سلیمان نے لِکھا لیکن کُچھ اقوالِ زریں کو کُچھ اور دانش مندوں نے بھی لِکھا ہے۔ اس لیے اِمثال کی کتاب میں ایسے بیانات مِلتے ہیں جو ایسے لوگوں کا تعارف کرواتے ہیں جنہوں نے یا تو اقوالِ زریں کو لکھا یا جمع کیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ کس نے اِن کو لِکھا یا جمع کیا، ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یہ سارے الفاظ اپنے اندر اِختیار رکھتے ہیں کیونکہ سارا کلام خُدا کی طرف سے ہے۔ عُلما نے جو زندگی کا جو گہرا مُشاہدہ کرکے اُس کو اقوالِ زریں میں ترتیب دیا ہم اُس کی داد دیتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ اس ساری حِکمت کا وسیلہ حِکمت کا منبع خُود ہے۔

امثال ١ باب ١-٧ آیات اِن اقوالِ زریں کے مقصد کو بیان کرتی ہیں۔ سلیمان اِن ضرب المثل کے جمع کیے جانے کے مقصد کو بیان کرنے کے لیے فعل مُطلق کا استعمال کیا ہے۔ اس فہرست میں شامل ہیں: « حکمت اور تربیت حاصل کرنے اور فہم کی باتوں کا امتیاز کر نے کے لئے، عقلمندی اورصداقت اور عدل اور راستی میں تربیت حاصل کرنے کے لئے داناؤں کی باتوں اور اُنکے معموں کو سمجھ سکے»۔

اِس فہرِست میں امثال کو جمع کرنے کی دو وجوہات بیان کی گئ ہیں۔ پہلی وجہ زندگی گُزارنے کے لیے اقوالِ زریں کی فہرست مُہیا کرنا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ اقوالِ زریں ذہنی قوت کا باعث ہیں۔ «جاننا»، حاصل کرنا»، «دانائی دینا»، اور «سمجھنا» سب عملی الفاظ ہیں۔ اگر ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں «فہم»، «ہدایات»، امثال، «حکمت والی پہیلیاں»، ذہنی مہارت کی ضرورت ہوگی۔ امثال کا ترجمہ تمثیل اور طنز کے الفاظ میں بھی کیا جاتا ہے۔ یسعیاہ ١٤ باب ٤ میں طنز کا انداز پڑھنے والے کو سوچنے اور مُقابلہ کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ سارا مواد ذہنی مشق اور قوت کا سبب بنتا ہے۔

اقوالِ زریں کو لِکھنے کے لیے دو مہارتوں کی ضرورت ہے۔ پہلے تو بزرگوں نے زندگی کا بڑی ہوشیاری کے ساتھ گہرا مُشاہدہ کیا۔ جو جو وہ دیکھتے گئے اُس کے بارےمیں اپنی سوچ کو بھی مُرتب کرتے گئے۔ پھر اُنہوں نے اس مُشاہدے کو بڑی ہُنرمندی کے ساتھ اقوالِ زریں میں ڈھالا۔ ان تمثیلوں کو سمجھنا اس لیے مُشکل ہے کیونکہ مُصنف چاہتا ہے کہ پڑھنے والے کی دہنی مشق ہو سکے۔ اگر آپ کوئی تمثیل پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب ایک دم سمجھ نہ آنے کی وجہ اس کا اندازِ تحریر ہے۔ سُست پڑھنے والا بُہت سی تمثیلوں کو سمجھ نہیں پائے گا لیکن لیکن ایک قابل قاری اُن کو پڑھ کر اپنی زندگی کواور زیادہ بامقصد بنائے گا۔

کتاب کا نام امثال ہے وعدے نہیں۔ امثال کے طور پر امثال ٢٢ باب ٦ « لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جٓانا ہے۔وہ بوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑیگا» ایک زریں قول ہے وعدہ نہیں۔ امثال زندگی کے بارے میں ایک گہرا مُشاہدہ ہے۔امثال ٢٢ باب ٦آیت بتاتی ہے کہ بچے کی تربیت اگر خُدا کے بتائے ہُوئے راستے پر کی جائے تو اُس کی زندگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن امثل نہ تو کوئی وعدہ کرتی ہے اور نہ کسی نتیجے کی یقین دہانی کرواتی ہے۔ خُدا نے ہمیں آزاد مرضی دی ہےاور زندگی کو نہ تو اپنے اختیار میں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ ہم زندگی کے اِمکانات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ امثال ہمیں بتاتی ہیں کہ اس طرح سے ہم زندگی کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔

امثال کی کتاب کے دو حصے ہیں۔ ١-٩ ابواب میں کہاوتوں کا تعرُف ہے۔ ضرب المثل ١٠ باب سے لے کر ٣١ باب تک ہیں۔ ساری کتاب شاعری میں لکھی گئی ہے اورحکمت سے مُطعلق مواد پر مبنی ہے لیکن کہاوتوں کا آغاز ١٠ باب سے ہوتا ہے۔

واعظ

واعظ کی کتاب پر پورے طور سے دھیان دینے کی ضرورت ہے، اور کئی دفعہ قاری مُصنف کوسمجھ نہیں پاتا۔ یہ بیان کرتی ہے کہ زدگی کتنی مُشکل ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے یہ کہ رہی ہو کہ زندگی میں نہ تو کوئی اُمید ہے اور نا کوئی مقصد ہے۔ اس کے خیال کا تعارف ١ باب ٢ آیت میں ہے «باطل ہی باطل واعظ کہتا ہے باطل ہی باطل۔ سب کچھ باطل ہے»۔ زندگی جدید ٹیکنالوجی کی طرح ہے۔ جب تک آپ کو اس کا پتا چلتا ہے یہ بدل چُکی ہو تی ہے۔کئی دفعہ آپ زندگی کو صحیح سمت میں لے کر جا رہے ہوتے ہیں اور زندگی کی سِمت یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔

واعظ کی کتاب بُہت سے موڑوں، بند گلیوں اور تضادات سے بھری ہُوئی ہے۔ آپ ایک بیان کو پڑھتے ہیں جو کُچھ کہتا ہے اور دوسرا اس کے مُتضاد ہوتا ہے۔ یہ مُشکل کتاب ہے۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ مُصنف نے اس کتاب کو اس طرح سے لِکھا ہے جیسے زندگی کو گُزارا جاتا ہے۔ بند گلیاں اور تضادات زندگی کے ان ہی لمحوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

واعظ کے خاکے کے بارے میں سوچیں۔ پہلا حصہ ١ باب ١-١١ اور ٦ میں بتاتا ہے کہ زندگی سمجھ سے باہر ہے۔ ہم کبھی بھی پورے طور سے اس کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ وہ دُنیا جس کو ہم پورے طور سے سمجھ نہیں سکتے اس میں ہمیں سیکھنا چاہیے کہ خُوشی کے ساتھ زندگی کیسے گُزار سکتے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ (١١ باب ٧-١٢ اور ٨ میں بتات ہے کہ ہم زندگی کو قابو نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارے قابو میں نہیں ہے۔ اس لیے وہ دُنیا جس کو ہم قابو نہیں کر سکتے، ہمیں سیکھنا ہے کہ ہم کس طرح سے اس میں زندہ رہ سکتے ہیں۔

یہ ایک پہیلی ہے ماہر ذہن کو مشغول کرنے کے لیے۔ واعظ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نہ تہ زندگی کو سمجھ سکتے ہیں نہ اِس کو اپنے قابو میں کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم امثال میں پڑھتے ہیں کہ زندگی پر ہمارا کُچھ اِختیار ہے۔ ہم زندگی کو اِتنا سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اس کو حِکمت کے ساتھ گُزار سکیں۔ امثال کی کتاب زندگی کے بارے میں «اگر/تب» کے خیال کو پیش کرتی ہے اور واعظ «اگر/ اور کون جانتا ہے» کے خیال کو پیش کرتی ہے۔

تو ہم کس کتاب کا اعتبار کریں؟ ہمیں دونوں پر یقین رکھنا ہے۔ اگر ہم امثال اور واعظ کو پڑھیں تو یہ ہمیں ایک تصویر کے دو رُخ لگتے ہیں اور زندگی کو اور زیادہ وسیع انداز میں سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ دانش مند شخص کہتا ہے کہ “ میں نے اپنی زندگی کو ایسے گُزارنا ہے جیسے خُدا چاہتا ہے، کیونکہ یہ میرے لیے اچھی زندگی گُزارنے کے اِمکان کو بڑھادیتا ہے”۔ لیکن دانش مند شخص یہ بھی جانتا ہے کہ زندگی کے ایسے رُخ بھی ہیں جن کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا اپنی زندگی پر کوئی اختیار نہیں ہے اور ہم دوسری کی زندگی پر بھی بہت کم اختیار رکھتے ہیں۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو نہ ہم بدل سکتے ہیں نہ ٹھیک کرسکتے ہیں اور نہ اُن کو سمجھ سکتے ہیں۔

ایوب

ایوب کی کتاب حکمت کی تیسری کتاب ہے: اور یہ اس سوال سے مُقابلہ کرتی ہے کہ اچھا اور خُدا پرست انسان کیوں دُکھ اُٹھاتا ہے۔ کِتاب کے آغاز میں ایوب کا تعارف ایک خُداپرست انسان کو طور پر کروایا جاتا ہے اور اسی لیے شیطان نے خُدا کو ایوب کے ایمان کی سچائی کو پرکھنے کے لیے خُدا کو للکارا۔ خُدا نے شیطان کو اِجازت دی کہ وہ ایوب کو اُس کے سارے اثاثوں سے محروم کردے بشمول اُس کا خاندان اور صحت،یہ دیکھنے کے لیے کہ ایوب خُدا کا انکار کرتا ہے یا نہیں۔

ایوب کے دوست اُس کو تسلی اور مشورہ دینے آئے۔ اُن کی نیت صاف تھی لیکن وہ اچھا مشورہ دینے والے نہیں تھے۔ وہ اس بات پر قائل تھے کہ ایوب اس لیے تکلیف میں تھا کیونکہ اُس نے گُناہ کیا تھا۔

جب آپ ایوب اور اُس کے دوستوں کے درمیان تین دفعہ ہونے والے مکالمے کو پڑھتے ہیں تو تناؤ بڑھتا ہُوا نظر آتا ہے۔ اُس کو مشورہ دینے والے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سو گُناہ کی معافی مانگے، لیکن ایوب اپنی بے گُناہی کا دِفاع کرتا ہے۔ کیونکہ ایوب کا مُصنف ہمیں پہلے باب میں ایوب کی پریشانی کے سبب کے بارے میں بتاتا ہے اور اسی لیے ہم جانتے ہیں۔ لیکن ایوب اور اُس کے دوست زندگی کو عام حالات کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ ایوب کی پریشانی کی وجہ کو جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگر ہم کتاب کو اُن کے نقطہ نظر سے پڑھیں تو اس تکرار کی وجہ کو جان سکیں گے۔

کتاب کے آخری ابواب (٣٨-٤٢) خُدا اور ایوب کے درمیاں مُکالمے کے لیے مُختص ہیں۔ خُدا نے ایوب کو بتایا کہ وہ اس لیے پریشان نہیں تھا کہ اُس نے گُناہ کیا تھا بلکہ اس کے پیچھے بڑا مقصد تھا۔ بلکہ یہ ثابت ہُوا کہ ایوب راستباز تھا اور اُس کا ایمان کامل تھا۔

کئی دفعہ ہم بھی زندگی میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم اس لیے پریشان ہیں کیونکہ ہم نے خُدا کی نافرمانی کی ہے۔ یا اس سے بھی بُرا کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کے بارے میں رائے دیتے ہیں۔ ایوب اور اُس کو مشورہ دینے والوں سے ہم کو سیکھنا چاہیے اور پرشانی میں مُبتلا انسان کے تعلق کو بُرائی سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ وہ اپنے ایمان کے ساتھ اس مُشکل میں پھنسا اور خُدا کے ساتھ شکوہ کرتا رہا۔ لیکن بھر اُس نے خُدا کی بات کو سُنا اور خُدا میں اپنے ایمان کو بحال کیا۔

نتیجہ

کسی بھی کام میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وقت اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہر ترکھان، موسیقار، عالم، یا والدین نے اپنی اپنی مہارت کو نِکھارا۔ ُپرانے عہد نامے میں حکمت کا علم ہم کو سِکھاتا ہے کہ حکمت کے ساتھ زندگی گُزارنے کا آغاز خُدا کے خوف سے ہوتا ہے۔ ہم زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں اُس وقت کامیاب ہونگے جب ہم کلام میں موجود راستے کو سمجھیں گے اور ایمان کو کامل کرنے کے لیے اپنے اندر مہارت پیدا کرینگے۔