window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

لیکچر

تعارف

چار سو سال کی بدنظمی کے بعد «اور ان دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہ تھا ۔ہر ایک شخص جو کچھ اسکی نظر میں اچھا معلوم ہوتا تھا وہی کرتا تھا» (قضاۃ ٢١ باب ٢٥ آیت) اسرائیل ایک بادشاہ کا مُطالبہ کرتی ہے۔ اسرائیل نے خُد کی بادشاہت کو رد کردیا تھا لیکن پھر بھی خُدا نے اُن کو بادشاہ دیے جِنہوں نے اُن پر چار صدیوں تک حکومت کی۔

تاریخ کی چار کتابیں اسرائیل کی بادشاہت کی کہانی کو بیان کرتی ہیں: پہلا اور دوسرا سموئیل اور پہلا اور دُوسرا سلاطین۔ بادشاہت کے دور میں کہانی کی کوئی کتاب نہیں ہے لیکن بُہت سارا مواد ہے جو کہانی کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ اسرائیل کی شاعری اور حکمت سے مُطعلق علم اسی دور میں زیادہ لِکھا گیا اور اسرائیل کے سولہ میں سے تیرہ انبیا نے اسی دور میں جب بادشاہ حکومت کر رہے تھے لِکھا۔ پہلا اور دوسرا تواریخ بیشک بادشاہت کے دور کے ایک صدی بعد میں لِکھا گیا لیکن پھر بھی داؤد کے دور کے بادشاہوں کی کہانی ہے۔ نوحہ کی کتاب یروشلیم پر نوحہ ہے جو کہ بادشاہت کے دور کے اِختتام پر لِکھی گئی۔

بادشاہت کے دور کا خُلاصہ

عظیم لوگ بادشاہت کے دور کا حصہ رہے اور بڑے واقعات رُونما ہُوے۔ داؤد اور جاتی جولیت کی کہانی اور داؤد اور بیت سبع کی کہانی اسرائیل کے عظیم بادشاہ کی عظمت اور گراوٹ کو بیان کرتی ہیں۔ داؤد کا عہد مسیحا کا وعدہ کرتا ہے۔ سلیمان کی ہیکل بادشاہوں کے دور میں بنائی اورتباہ کی گئی۔ اسرائیل نے اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو قومیں بنائیں۔ اسرائیل کا شاعری اور حکمت کا علم اور انبیا کی خدمت کو زیادہ تر بادشاہوں کے دور میں لکھا گیا۔ اسرائیل کی ایک غیر قوم بادشاہ کی غُلامی میں جانے سے اس کہانی کا اِختتام ہوتا ہے۔

بادشاہت کے دور کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اسرائیل پر انسانی بادشاہت کے باوجود خُدا استشنا کی کتاب میں دیے گئے برکت اور لعنت کے قوانین کے ساتھ اسرائیل پر حکومت کر رہا تھا۔ صدیوں تک خُدا صبر کے ساتھ اسرائیل کی طرف سے اپنے قوانین اور شریعت کو رد کیے جانے کو برداشت کرتا رہا۔ کیونکہ خُدا اپنے وعدوں میں سچاہے اُس نے اپنے حفاظت والے ہاتھ کو ہٹا لیا۔ اسرائیل اسوریوں اور یہوداہ بابل کے ہاتھوں میں جاگِرا۔ سموئیل اور سلاطین کے مُصنفین کا مقصد واضع ہے۔ اس کا مقصد اس بات کو واضع کرنا تھا کہ اسرائیل اور یہوداہ کی تباہی کی وجہ اُن کی نافرمانی تھی۔

بادشاہت کا دور چار حصوں میں تقسیم ہے۔ بادشاہت کی تیاری کو١ سموئیل ١-٧ میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر مُتحدہ سلطنت اور اِس کے تین بادشاہوں کا دور ( ساؤل، داؤد اور سُلیمان) ١ سموئیل ٨ باب سے ١ سلاطین ١١ باب میں قلم بند ہے۔ مُنقسم سلطنت کا تیسرا دور ١ سلاطین ١٢ سے ٢ سلاطین ١٧ تک درج ہے۔ اور چوتھا دور جو یہوداہ کے آخری دِنوں کے بارے میں بتاتا ہے ٢ سلاطین ١٧-٢٥ میں درج ہے۔ ٥٨٦ قبل ازمسیح میں بابلیوں نے یروشلیم کو تباہ کردیا، یہوداہ کے دارالحکومت کو، اور اس میں بسنے والوں کو غُلام بنا لیا۔

١ سموئیل

١ سموئیل ١-٧ قضاۃ سے لے کر اسرائیل کے پہلے بادشاہ کے مسح کیے جانے تک بتاتے ہے۔ سموئیل اس تبدیلی کا اہم کردار ہے۔ وہ آخری قاضی تھا اور اُس نے اسرائیل کے پہلے دو بادشاہوں کو مسح کیا۔ کئی دفع قاضیوں اور بادشاہوں کے درمیان اس پر غور نہیں کیا جاتا لیکن سموئیل بائبل کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔

پیدائش ١٢باب میں خُدا نے ابراہام سے وعدہ کیا تھا کہ اُس سے ایک بڑی قوم پیدا ہوگی۔ اِستشنا ١٧ میں اُس نے اسرائیل کو ہدایات دیں کہ اُنہوں نے اپنا بادشاہ کس طرح چُننا ہے۔ خُدا نے اسرائیل کے لیے ایک بادشاہ کا منصوبہ بنایا تھا جو خُدا کے نُمائندے کے طور پر اسرائیل پر حکومت کرے گا۔ لیکن اسرائیل قضاۃ کے دور میں پیدا ہونے والی بدنظمی سے تنگ آچُکی تھی۔ اسرائیل کو اُس کے گِرد رہنے والی قوموں سے حملے کا خطرہ تھا اس لیے اسرائیل کے قبیلوں کا اِتحاد ضروی تھا۔ اسرائیل نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ، کیونکہ اُن کا کوئی بادشاہ نہیں ہے اس لیے وہ مظلوم ہیں، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اُنھوں نے یہواہ خُدا کو اپنا بادشاہ ماننے سے اِنکار کردیا تھا۔

اسرائیل نے ١سموئیل ٨ باب ٥ آیت میں بادشاہ کے لیے اپنی خُواہش کو اِختصار کے ساتھ پیش کیا۔ اُنھوں نے کہا، «اور اُس سے کہنے لگے دیکھ تُو ضیعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے ۔ اب تُو کِسی کو ہمارا بادشاہ مقُرر کر دے جو اَور قَوموں کی طرح عدالت کرے - لیکن جب اُنہوں نے کہا کہ ہم کو کوئی بادشاہ دے جو ہماری عدالت کرے تو یہ بات سؔموئیل کو بُری لگی اور سؔموئیل نے خُداوند سے دُعا کی ۔ اور خُداوند نے سؔموئیل سے کہا کہ جو کُچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تو اُسکو مان کیونکہ اُنہوں نے تیری نہیں بلکہ میری ھقارت کی ہے کہ میں اُنکا بادشاہ نہ رہُوں» ١سموئیل ٨ باب ٧ آیت۔ خُدا کا اسرائیل کو بادشاہ مُہیا کرنے اور اسرائیل کے بادشاہ مانگنے میں نیت کا فرق تھا۔ خُدا اپنی بادشاہت میں اسرائیل کو نُمائندگی کے لیے ایک شخص دینا چاہتا تھا لیکن اسرائیلی چاہتے تھے کہ اُن کے قریب بسنے والی قوموں کی طرح اُن کی عسکری قیادت کے لیے کوئی ہو۔

١ سموئیل کا آغاز سموئیل کی پیدائش اور اِختتام ساؤل کی وفات سے ہوتا ہے۔ اس میں ساؤل کو بطور بادشاہ مسح کیا جانا، اُس کی کامیابیاں اور آخ میں اُس کی ناکامیاں درج ہیں۔ ١ سموئیل داؤد کا اسرائیل کے اگلے اور زبردست بادشاہ کے طور پر تعرف کرواتا ہے۔ کتاب کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو بیان کیا جاسکے کہ اسرائیل کی بادشاہت کا نظام کس طرح سے وجود میں آیا اور اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اسرائیل نے خُدا کو رد کر دیا لیکن خُدا نے اُن کو نہ چھوڑا۔

٢ سموئیل

٢ سموئیل داؤد کے بارے میں ہے اور ٥ باب ٤-٥ اُس کی بادشاہت کی خُلاصہ پیش کرتا ہے۔ « اور داؔؤد جب سلطنت کرنے لگا تو تیس برس کا تھا اور اُس نے چالیس برس سلطنت کی۔ اُس نے حؔبرون میں سات برس چھ مہینے یؔہُوداہ پر سلطنت کی اور یرؔوشلم میں سب اِسؔرائیل اور یؔہُوداہ پر تینتیس برس سلطنت کی «۔ چھٹے باب میں داؤد نے اسرائیل میں عہد کے صندوق کو دوبارہ لا کر یہواہ کے تخت کو دوبارہ قائم کیا۔ ساتویں باب میں داؤد کے ساتھ خُدا کا وعدہ قلمبند ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اُس کا ایک وارث ہمیشہ کے لیے اُس کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور متی اپنی انجیل کے آغاز میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ «یِسُوع مسِیح اِبنِ داؤد اِبنِ ابرہام کا نسب نامہ (متی ١ باب ١ آیت)»۔ چھٹے باب میں داؤد خُدا کے تخت کو قائم کرتا ہے اور ساتویں باب میں خُدا داؤد کے تخت کو قائم کرتا ہے۔

داؤد کی کہانی کے دو حصے ہیں۔ ١ سموئیل ١٦ سے ٢ سموئیل ١٠ باب تک داؤد کو خُدا کی نُمائندگی کرنے والے بادشاہ اور اُس کی کامیابیوں کو قلمبند کیا گیا ہے۔ لیکن ٢ سموئیل ١١ میں بیت سبع اور حتی اوریاہ کے ساتھ گُناہ اور اُس کے بعد مُشکلات کے آغاز کو بیان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ عظیم داؤد بادشاہ، ایسا شخص جو خُدا کے دِل کے موافق تھا وہ بھی خُدا کے برکت اور لعنت کے قانون سے نہ بچ سکا۔ خُدا نے داؤد کے گُناہ کو معاف کردیا لیکن ٢ سموئیل ١١ باب سے لے کر ١ سلاطین ٢ تک ہم دیکھتے ہیں کہ اُس کی زندگی مُشکلات سے بھری ہُوئی تھی۔

٢ سموئیل کا مرکزی خیال یہ ہے کہ خُدا کی عدالت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ جب داؤد وفاداری کے ساتھ خُدا کے ساتھ چلا تہ خُدا نے اُسے برکت دی۔ لیکن جب اُس نے نافرمانی کی تو اُس کو اس کی بڑی قیمت چُکانی پڑی۔ اس کتاب کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خُدا گُناہ کو مُعاف کرتا ہے لیکن اس کے نتائج کو ختم نہیں کرتا۔

١ سلاطین ١-١١ اور سُلیمان

١ سلاطین ١-١١ میں سلیمان کی بادشاہت کا دور قلم بند ہے۔ ٣ باب خُدا کے لیے سلیمان کی مُحبت کو بیان کرتا ہے جو کہ اُس کی بادشاہت کی بُنیاد تھا۔ باب ٣ اور ٤ میں اُس نے خُدا سے حکمت مانگی تاکہ وہ خُدا کے لوگوں پر بہتر طور سے حکومت کر سکے۔٥-٨ ابواب بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے سُلیمان نے خُدا کے لیے شاندار ہیکل کو تعمیر کیا۔ سلیمان کی شان وشوکت، دولت اور حکمت کے بارے میں ٩ اور ١٠ باب میں ذکر ہے۔ وہ سب کُچھ جو داؤد اپنے تخت کے وارث میں چاہتا ہوگا اُس میں تھا۔

لیکن داؤد کی اُس کا اِختتام اُس کی شُروعات کی طرح نہیں تھا، اور باب ١١ سلیمان کی زندگی میں ایک المناک موڑ کو ظاہر کرتا ہے۔

خُدا سلیمان سے ناراض ہُوا کیونکہ اُس کا دل اسرائیل کے خُدا سے مُنحرف ہوگیا تھا۔ اُس نے سلیمان کو دوسرے دیوتاؤں کے پیچھے جانے سے منع کیا تھا لیکن خُدا نے خُدا کی حُکم عدولی کی۔ تو خُدا نے سلیمان سے کہا، “ اِس سبب سے خُداوند نے سُلیمان کو کہا چونکہ تُجھ سے یہ فعل ہوا اور تُو نے میرے عہد اور میرے آئین کو جنکا میں نے تُجھے حکم دیا نہیں مانا اِس لیے مَیں سلطنت کو ضرور تُجھ سے چھینکر تیرے خادم کو دونگا” (ا سلاطین ١١ باب ٩-١١)۔

١ سلاطین ١٢ سے ٢ سلاطین ٢٥ اسرائیل کی مُنقسم بادشاہت

سلیمان نے اسرائیل کی تباہی کا بیج بو دیا تھا، اور خُدا نے داؤد کی بادشاہت کو سلیمان کے بیٹے رحبعام سے لے لیا۔ خُدا نے سلیمان کو بتایا کہ وہ اُس کی نافرمانی کی وجہ سے کس طرح اُس کی بادشاہت کو اُس سے لے گا لیکن داؤد کے ساتھ کیے ہُوئے وعدے کی وجہ سے پورے طور پر نہیں۔ « اِس سبب سے خُداوند نے سُلیمان کو کہا چونکہ تُجھ سے یہ فعل ہوا اور تُو نے میرے عہد اور میرے آئین کو جنکا میں نے تُجھے حکم دیا نہیں مانا اِس لیے مَیں سلطنت کو ضرور تُجھ سے چھینکر تیرے خادم کو دونگا» (١سلاطین ١١ باب ١٣)۔ سلیمان کو نافرمانی کی سزا اور داؤد کے ساتھ کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے خُدا دو قوموں کو بنائے گا۔ ایک میں اسرائیل کے دس شمالی قبیلے جو اسرائیل کے نام کو قائم رکھیں گے۔ اُن کا ایک الگ بادشاہ تھا جس کا نام یربعام تھا۔ لیکن داؤد کی بادشاہت ایک چھوٹی حکومت میں قائم رہے گی جو کہ بنیامین اور یہوداہ کے قبیلوں پر مُشتمِل ہوگی اور اُس کا نام یہوداہ ہوگا۔ سلیمان کا بیٹا یربعام جنوبی قوم کا پہلا بادشاہ ہوگا۔

٩٣١ سے ٧٢٢ قبل از مسیح تک جب اسوریوں نے اسرائیل کے دارالحکومت سامریہ کو تباہ کیا ابراہام کے نسل دو قوموں کے طور پر رہی۔ اس کے بعد ٧٢٢ تک یہوداہ کو اسوریوں اور بابلیوں نے تنگ کیا، اور ٥٨٦ میں نبوکدنظرنے یہوداہ کے دارالحکومت کو تباہ کردیا۔

اسرائیل کے بیس بادشاہ تھے اور یہوداہ کے اُنیس بادشاہ اور ایک ملکہ۔ اسرائیل کا ایک بادشاہ بھی خُدا کے ساتھ نہ چلا۔ اُن کے پہلے بادشاہ یربعام نے دو مذہبے بنا کر بُت پرستی کو مُتعارف کروایا۔ دوسرے سلاطین میں اِکیس ایسے واقعات ہیں جب یربعام نے اسرائیل سے گُناہ کروایا۔ یہوداہ کا حال اس سے کُچھ بہتر تھا، اُس کے بیس بادشاہوں میں سے آٹھ خُدا کے ساتھ چلے۔ لیکن اُس کی تاریخ کی وجہ سے بیس میں سے صرف آٹھ کا خُدا کے ساتھ چلنا اہانت آمیز ہے۔ اسرائیل ٢١٠ سال تک قائم رہی، ٩٣١ سے ٧٢٢ قبل از مسیح۔ یہوداہ ٣٤٥ سال قائم رہی ٩٣١ سے ٥٨٦ قبل از مسیح۔ اسرائیل پر نو مُختلف خاندانوں نے حکومت کی اور یہوداہ پر صِرف ایک خاندان جو کہ داؤد کا خاندان تھا۔ دونوں قوموں کی قیادت بدنظمی کا شِکار تھی اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے بادشاہوں میں سات قتل ہُوئے، ایک نے خُود کُشی کی،اور ایک پر خُدا کا قہر نازل ہُوا۔ یہوداہ میں پانچ بادشاہ قتل ہُوے، دو پر خُدا کا قہر نازل ہُوا،اور تین بادشاہ غیرقوموں کے ہاتھوں اسیر ہُوئے۔ شان شوکت والے آغآز کے بعد ابراہام کی نسل کا المناک انجام ہُوا۔

یہوداہ اوراسرائیل کا یہ جو دُکھ کا دور تھا اس میں خُدا کے انبیا اور زیادہ واضع طورپر نظر آئے۔ اُنھوں نے اسرائیل اور یہوداہ کو جِھڑکا، اُن کی مِنت کی اور اُن کے ساتھ بحث کی تاکہ وہ بُت پرستی کو ترک کرکے یہواہ کی پرستش کریں۔ کیونکہ صرف خُدا ہی اُن کو دُشمن سے آزاد کروا سکتا تھا اور داؤد اور سلیمان کے دور کی شان وشوکت لَوٹا سکتا تھا۔

١ سلاطین ١٢ سے لے کر ٢ سلاطین ٢٥ میں اسرائیل کی تاریخ کے اختتام تک جو مرکزی خیال ہے وہ یہ ہے کہ خُدا استشنا میں کیے ہُوے وعدے پر قائم رہا۔ اسرائیل عذاب تک پُہنچ گئی۔ اس کا عذاب خُدا کی مُحبت اور صبر میں کمی کا نتیجہ نہیں تھا۔ہم دسویں سبق میں انبیا کے بارے میں پڑھیں گے کہ کس طرح خُدا نے اپنے باغی لوگوں کے ساتھ اپنے تعلق کو بحال کرنا چاہا۔ خُدا اپنے رحم اور مُحبت کی وجہ سے نافرمان لوگوں کا انتظار کرتا ہے کہ وہ توبہ کریں اور اُس کی طرف لوٹ جائیں۔ اسرائیل کے لیے جو سچائی تھی وہی سچائی ہمارے لیے بھی ہے۔ ہمارا لاتبدیل خُدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے پاس لوٹ آئیں۔