window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

لیکچر

تعارف

پُرانا عہد نامہ اسرائیل کی تاریخ کے جِلاوطنی اور تعمیرِنو کے دوسو سال کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا نام یہ تجویز کرتا ہے کہ اس دور کے دو مرحلے تھے: بابل میں یہوداہ کی جِلاوطنی اور جِلاوطنی کے اختتام پر یروشلیم کی تعمیرِ نو۔

جِلا وطنی

تاریخ کی کِتابوں میں کوئی بھی ایسی کِتاب نہیں ہے جو اکیلے جِلاوطنی کی کہانی کو بیان کرے۔ ہم ٢ سلاطین، ٢ تواریخ،یرمیاہ، حزقی ایل اور دانی ایل سے واقعات کو لے کر کہانی کو ترتیب دیتے ہیں۔ یہوداہ کی جِلاوطنی کا آغاز ٥٨٦ قبل از مسیح میں ہُوا جب نبوکدنظر نے یروشلیم کو گرا دیا اور لوگوں کو بابل کی طرف جِلاوطن کر دیا۔ یہ جِلا وطنی ٥٣٩ قبل ازمسیح تک رہی جب فارسیوں نے بابلیوں کو شکست دی اور یہودیوں کا آزاد کروایا۔ جِلاوطنی کا اِختتام ہُوا اور اب وقت تھا کہ وہ اپنے گھر کو لوٹ جائیں اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کریں۔ دانی ایل کی کتاب کہانی کی کتاب ہے جس میں وہ واقعات جو بابل میں اسیری کے دوران اُس کی زندگی میں ہُوئے درج ہیں۔

تعمیرِ نو

عزرا اور نحمیاہ تاریخ کی کِتابیں ہیں جو یہوداہ کی تعمیرِنو کو بیان کرتی ہیں۔ اِن کِتابوں کا مرکزی خیال یہ تھا کہ خُدا اسرائیل کی رہنُمائی کررہا تھا جب وہ اسرائیل میں واپس آئے اور اپنی زندگیوں کو بحال کیا اور دوبارہ تعمیر کیا۔ اِن دونوں کِتابوں میں یہوداہ کے لیے خُدا کی معجزانہ مداخلت اور مدد کا ذِکر ہے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کی تعمیرِنو کرسکیں۔

تعمیرِ نو کے دور کی تعریف کرنے کے لیے ہمیں یہودیوں کا وہ جذبہ جس میں وہ سمجھتے تھے کہ واپسی پر کیا ہو گا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خُدا نے داؤد سے وعدہ کیا تھا کہ ایک دن اُس کے تخت پر ایک بچانے والا مسیحا بیٹھے گا اور اسرائیل کی شان و شوکت کو بحال کرے گا۔ اسرائیل کے نبیوں نے اُس دور کے لیے بڑی اُمیدیں لگا رکھی تھیں اور خورس کے فرمان نے اُن کے دِلوں کو اُمیدوں سے بھر دیا تھا کہ وقت نزدیک ہے۔ عزرا بیان کرتا ہے “ شاہ فارس خورس یوں فرماتا ہے کہ خداوند آسمان کے خدا نے زمین کی سب مملکتیں مجھے بخشی ہیں۔اور مجھے تاکید کی ہے کہ میں یروشلم میں جو یہوداہ میں ہے اسکے لئے ایک مسکن بناؤں۔ پس تمہارے درمیان جو کوئی اسکی ساری قوم میں سے ہواسکا خدا اسکے ساتھ ہو اور وہ یروشلم کو جو یہوداہ میں ہے جائے اور خداوند اسرائیل کے خدا کا گھرجو یروشلم میں ہے بنائے(خدا وہی ہے)۔ اور جو کوئی کسی جگہ جہاں اس نے قیام کیا باقی رہا ہو تو اسی جگہ کے لوگ چاندی اور سونے اور مال اور مواشی سے اسکی مدد کریں اور علاوہ اسکے وہ خدا کے گھر کے لئے جو یروشلم میں ہے رضا کے ہدئے دیں”(عزرا ١باب٢-٤) ۔ یسعیاہ اور دوسرے انبیا نے مسیحا کی آمد کے بارے میں اِس طرح سے مُنادی کی “اے صیون کو خوشخبری سنانے والی اونچے پہاڑ پر چڑھ جا اور اے یروشلیم کو بشارت دینے والی زور سے اپنی آواز بلند کر! خوب پُکار اور مت ڈر۔ یہوداہ کی بستیوں سے کہہ دیکھو اپنا خدا دیکھو خداوند خدا بڑی قدرت کے ساتھ آئیگا اور اسکا بازو اسکے لیے سلطنت کریگا۔ دیکھو اسکا صلہ اسکے ساتھ ہے اوراسکا اجر اسکے سامنے” (یسعیاہ ٤٠ باب ٩-١٠)۔ یہ ایک واضع اُمید تھی جو اسرائیل کو اُن کی سرزمین میں واپس لے کر آئی۔

عزرا کی کتاب

عزرا کی کتاب میں دو بڑے واقعات قلم بند ہیں۔ عزرا ١-٦ بیان کرتے ہیں کہ کِس طرح سے زربابل نے اسرائیل کی یروشلیم میں واپسی اورہیکل کی تعمیرِ نو میں رہنُمائی کی۔ باب ٧-١٠میں عزرا کی رہنُمائی میں خُدا کے وعدے کے ساتھ بڑی بحالی اور تعمیرِ نوکا تجربہ ہُوا۔ زربابل نے ہیکل کی تعمیر میں رہنُمائی کی اور عزرا نے لوگوں کی بحالی کا کام کیا، لیکن پوری کتاب کا مرکزی کردارخود خُدا ہے۔ اس سارے کام کے پیچھے وہی طاقت اور حوصلہ دینے والا ہے۔

عزرا کی کتاب کاآغآز اس بات سے ہوتا ہے کہ فارس نے یہودیوں کو گھر جانے کی لیے آزاد کیا۔ زربابل ٤٢،٣٦٠ یہودیوں کو واپس یہوداہ کو لے کر آیا تاکہ یروشلیم میں ہیکل کی تعمیرِنو کرسکیں۔ لیکن آٹھ سال کے بعد ہیکل کی تعمیر شُروع ہوئی، فارس کے جانشین پر یہوداہ کے دُشمنوں نے حملہ کیا تاکہ ہیکل کی تعمیرِ کے کام کو روکا جاسکے۔ دس سال تک ہیکل کو نظرانداز کیا جاتا رہا لیکن پھر ارتخششتا بادشاہ کے دور میں یہودیوں کو ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی اِجازت مِلی۔

وہ دس سال جن میں یہودیوں کو کام کرنے سے روکا گیا تھا وہ اور کاموں میں مشغول رہے۔ فارس کے دارا بادشاہ نے بھی تعیر کو روک دیا، کوئی کام نہ ہو سکا اور پھر خُدا نے حجی اورزکریاہ کو بھیجا اور اُنھوں نے یہوداہ کے لوگوں کو درخواست کی کہ وہ ہیکل کے کام کو جاری رکھیں۔ عزرا نے ان دونوں انبیا کے کردار پر زور دیا کہ کس طرح سے اُنھوں نے کام کو دوبارہ شُروع کروایا اور جاری رکھا۔

پھر نبی یعنی حجی نبی اور زکریاہ بن عِدُو اُن یہودیوں کے سامنے جو یہوداہ اور یروشلم میں تھے نبوت کرنے لگے انہوں نے اسرائیل کے خدا کے نام سے ان کے سامنےنبوت کی۔ تب زربابل بن سالتی ایل اور یشوع بن یوصدق اٹھے اور خدا کے گھر کو جو یروشلم میں ہے بنانے لگے اور خدا کے وہ نبی ان کے ساتھ ہو کر ان کی مدد کرتے تھے(عزرا ٥ باب ١-٢)۔

حجی کی خبردار کرنے والی مُنادی ہمیں ہیکل کے کام کی طرف لوگوں کے رویے کے بارے میں بتاتی ہے۔

کہ ربُ الافواج یُوں فرماتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ابھی خُداوند کے گھر کی تعمیر کا وقت نہیں آیا۔ تب خُداوند کا کلام حجی نبی کی معرفت پُہنچا۔ کہ کیا تمہارے لے مُسقف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جب کہ یہ گھر ویران پڑا ہے؟۔اور اب ربُ الافواج یُوں فرماتا ہے کہ تُم اپنی روش پر غور کرو۔ (حجی ١ باب ٢-٥)۔

And so the people resumed work on the temple, and in ٥١٦ BC it was completed.

ساٹھ سال بعد عزرا ایک اور جماعت کو لے کر یہوداہ میں داخل ہُوا۔ اُس کی بڑی بحالی کی کہانی عزرا ٧-١٠ میں درج ہے۔یہوداہ نے خُدا کے قانون کو ترک کردیا اور غیر قوم میں شادیاں کیں۔ جب عزرا کوپتا چلا کہ غیر قوم کے لوگ اپنی یہودی بیویوں کو بُتوں کی پرستش کرنے پر مجبور کرتی ہیں، تو وہ رویا اور اُس نے دُعا کی کہ خُدا اُس کی قوم کو مُعاف کرے۔ پھر اُس نے لوگوں کا سامنا کیا اوروہ اپنی غیر قوم کی بیویوں کو واپس بھیجنے پر تیار ہوگئے۔ یہ ایک بڑا سخت فیصلہ تھا لیکن گُناہ نے ایسے حالات پیدا کردیے تھے کہ بحالی مُشکل ہو گئی تھی۔ شادیوں کا ختم کرنا بُت پرستی کو جاری رکھنے سے بہتر تھا۔

خُدا کے فضل والے ہاتھ کے نیچے زربابل نے ہیکل کو تعمیر کرنے کے لیے یہوداہ کی رہنُمائی کی; اور ساٹھ سال بعد عزرا کی رہنُمائی میں اُنہوں نے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کی۔ لیکن عزرا کی تحریر کے اختتام سے پتا چلتا ہے کہ سب ٹھیک نہیں تھا۔ یروشلیم کے گِرد دیوار نہیں تھی جوشہریوں کو دُشمنوں سے بچاسکے۔

نحمیاہ کی کِتاب

نحمیاہ تعمیرِنوکی کہانی کو دو اور منصوبوں کے ساتھ لے کر آگے بڑھتا ہے۔ نحمیاہ ١ باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ یروشلیم کی دیوار ابھی تک نہیں بنی اور یہ یہوداہ کے شہریوں کے درمیان پریشانی کا سبب تھا۔ نحمیاہ ارتخششتا بادشاہ کے دربار میں کام کرتا تھا اور قصرِسوسن میں رہتا تھا، جو کہ فارس کا دارالخلافہ تھا۔ جب کُچھ لوگ یہوداہ سے قصرِسوسن کو آئے تو نحمیاہ نے اُن کی خیریت دریافت کی۔ « اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ باقی لوگ جو اسیری سے چھوٹ کر اُس صوبہ میں رہتے ہیں نہایت مُصیبت اور ذلت میں پڑے ہیں اور یروشلیم کی فصل ٹوٹی ہوئی اور اُسکے پھاٹک آگ سے جلے ہوئے ہیں» (نحمیاہ ١باب ٣)۔

نحمیاہ اپنے لوگوں کی حالت سے بُہت پریشان ہُوا۔ وہ کئی دنوں تک رویا، اُس نے ماتم کیا اور دُعا کی۔ پھر اُس نے ارخششتا بادشاہ سے یروشلم جانے کی اِجازت مانگی تاکہ یروشلم کی دیوار کو تعمیر کر سکے۔ ارخششتا نے نحمیاہ کو جانے کی اجازت دی اور ساتھ وسائل بھی مُہیا کیے تاکہ یروشلم کی دیوار کو تعمیر کیا جاسکے۔ خُدا دوبارہ اپنا کام کرنے کو تھا۔

جب نحمیاہ دیوار کی تعمیر کے لیے پہنچا تو اُس نے جانا کہ دیوار کی تعمیر کی بہت زیادہ مُخالفت ہے اور یہ ایک مُشکل کام ہے۔ لیکن خُدا نے نحمیاہ اور یہودیوں کا ساتھ دیا اور اُنھوں نے دیوار کی تعمیر کو مُکمل کیا۔ اس معجزاتی تعمیرِ نو پر لوگوں کا ردِعمل نحمیاہ ٦ باب ١٥-١٦ میں درج ہے، « غرض باون دِن میں الُول مہینے کی پچیسویں تاریخ کو شہر پناہ بن چکی ۔ جب ہمارے سب دُشمنوں نے یہ سُنا تو ہمارے آس پاس کی سب قومیں ڈرنے لگیں اور اپنی ہی نظر میں خود ذلیل ہوگئیں کیونکہ اُنہوں نے جان لیا کہ یہ کام ہمارے خدا کی طرف سے ہوا»۔

جب دیوار کی تعمیر کا کام ختم ہوگیا تو عزرا نے یہوداہ کے لوگوں کی ایک اور بحالی کی طرف رہنُمائی کی۔ نحمیاہ ٨ اور ٩ بتاتے ہیں کہ نحمیاہ نے موسیٰ کی شریعت کو لوگوں کے لیے پڑھا اور خُدا کے لیے ایک دن کو مُقدس مُقرر کردیا۔ لوگوں نے گُناہوں سے توبہ کی اور اس بات کا اِقرار کیا کہ وہ خُدا کی شریعت کی پابندی کرینگے۔ عزرا کی طرح نحمیاہ کی کتاب بھی تعمیر کے دو منصوبوں کو بیان کرتی ہے۔ نحمیاہ ١-٦ میں نحمیاہ نے یروشلم کی دیوار کی تعمیر میں رہنُمائی کی، اور ٧-١٢ میں عزرا نے لوگوں کی بحالی کے لیے کام کیا۔ بائبل کے اندر دیوار اور ہیکل جیسی کئی خُوبصورت کہانیاں ہیں۔ لیکن سارا دھیان خُدا کے لوگوں کے لیے خُدا کی مُحبت اور ہمدردی پر ہے۔

تعمیرِ نو اور کہانی کی کتابیں

Esther

تعمیرِنوکے دور کی کہانی میں جو کِتابیں تفصیل فراہم کرتی ہیں وہ آستر، تواریخ، حجی، زکریاہ اور ملاکی ہیں۔ آستر کی کہانی اُن یہودیوں کے بارے میں بتاتی ہے جو آزادی مِلنے کے بعد فارس میں رہ گئے تھے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کس طرح سے آستر اور اُس کے چچا کے بیٹے مردکی نے یہودیوں کو موت سے بچایا۔ آستر میں درج کیے گئے واقعات عزرا کے یہوداہ میں آنے سے پندرہ سو سال پہلے کے ہیں اور قاری کو یہ بتاتے ہیں کہ خُدا کے لوگ جہاں بھی رہتے ہیں خُدا اُن کی فِکر کرتا ہے۔ Chronicles

پہلا اور دوسرا تواریخ اسرائیل کے دو ادوار کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ یہ کتابیں داؤد کی بادشاہت کے بادشاہوں کے بارے میں اہم تفصیل فراہم کرتی ہیں۔ لیکن یہ کتاب جِلا وطنی کے بعد لِکھی گئی تاکہ مسیحا کے بارے میں لوگوں کی اُمید کو قائم رکھ سکے اور اپنے دور کے بارے میں بتا سکے۔ جو یہودی یہوداہ کو لوٹ گئے تھے سمجھتے تھے کہ خُدا داؤد کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرے گا اور یروشلم پر ایک بادشاہ حکومت کرے گا۔ لیکن یہوداہ میں زندگی مُشکل تھی اور لوگوں نے سمجھا کہ خُدا اُن کو بھول گیا ہے۔ تواریخ کا مُصنف اپنے قاری کو حوصلہ دینے کے لیے لِکھتا ہے کہ خُدا نے اپنے لوگوں کو نہیں چھوڑا اور ایک دن داؤد کا وارث داؤد کے تخت پر بیٹھے گا۔

حجی، زکریاہ اور ملاکی

حجی اور زکریاہ نے جو پیغام دِیا اور قلم بند کیا وہ پیغام یہودیوں کو ہیکل میں کام جاری رکھنے کے لیے حوصلہ دیتا ہے۔ اُن کے نام عزرا ٥ باب ١ آیت میں درج ہیں اور دونوں نبی اُن واقعات کی طرف دھیان کرواتے ہیں جو عزرا میں درج ہیں۔ حجی ہمیں بتاتا ہے « تب خُداوند کا کلام حجی نبی کی معرفت پُہنچا۔ کہ کیا تمہارے لے مُسقف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جب کہ یہ گھر ویران پڑا ہے؟» (حجی ١باب ٣-٤)۔ زکریاہ لوگوں کو خُدا کے وعدوں کی یاد دِلاتا ہے۔ وہ مسیحا کی اُمید کے پیغام کی مُنادی کرتا اور لوگوں کوموجودہ مُشکل حالات سے آگے سوچنے کا حوصلہ دیتا جب خُدا کا مسیحا وعدے کے مُطابق بادشاہت کرے گا۔ ملاکی کے لِکھے جانے کی تاریخ کا تعین کرنا مُشکل ہے لیکن اُس کی پیش گوئیاں نحمیاہ کے دور کی مُشکلات پر غور کرتی ہیں۔

نتیجہ

اِستِشنا میں اِسرائیل سے کیے گئے وعدے پر خُدا سچائی سے قائم رہا۔ وعدہ نہ صِرف فرمانبرداری کی صورت میں برکت کا تھا بلکہ نافرمانی کی صورت میں لعنت کا بھی۔ صدیوں تک اسرائیل کی بغاوت کو خُدا نے صبر کے ساتھ برداشت کیا اور اپنے وعدے پر قائم رہا۔ اسرائیل اور یہوداہ دونوں خُدا کے وعدے کے مُلک سے نِکال دیے گئے۔ لیکن خُدا نے ابراہام اور داؤد کے ساتھ اپنے وعدے کو قائم رکھا اور مُعجزانہ طور پر یہوداہ کے لوگوں کو کنعان میں واپس لایا اور وعدے کے مُلک میں اپنی زندگیوں کی تعمیرِنو میں مدد کی۔