window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

لیکچر

تعارف

دوسرے سبق میں ہم نے پُرانےعہدنامےکی کہانی کے مرکزی خیال کو دیکھا اور پیدائش سے نحمیاہ تک کی گیارہ کتابوں پر غور کیا جوپُرانے عہدنامے کی کہانی کو بیان کرتی ہیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں پُرانےعہد نامے کا ایک خاکہ مِل گیا ہے۔ لیکن ایک بہت بڑی تفصیل کو ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ اس سبق میں ہم کہانی کے اندر کُچھ تفصیل کا اضافہ کریں گے، ایسا کرنے کے لیے ہم پُرانے عہد نامے کی کہانی کی کُتب کوشامل کریں گے۔ آپ اس بات کو یاد کریں گے کہ یہ کُتب کہانی کو آگے بڑھنے سے روک کرتاریخ کی کِتابوں کو اور زیادہ تفصیل فراہم کرتی ہیں۔

ہم اس پر بھی غورکریں گے کہ اسرائیل کی حکمت اور فہم کی کِتابیں کس جگہ پر کہانی کا حصہ بنتی ہیں۔ اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ کون سی کِتابیں شامل کی گئیں اور وہ کب لکھی گئیں۔ پھر ہم غورکریں گے کہ انبیا کب اس دنیا میں اور اُنھوں نے خدمت کی۔ ہمیں تاریخی پس منظر کی ضرورت ہے تاکہ ہم انبیا کے الہیٰ پیغام کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ گزشتہ سبق میں ہم نے پُرانےعہدنامے کی کہانی پر غورکیا ہے, اس لیے اب ہم باقی کُتب کو کہانی کا حصہ بنا کردیکھیں گے کہ وہ کس طرح سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔

پُرانے عہد نامے کی کہانی کی کُتب

پہلے ہم کہانی کی کُتب کو دیکھیں گے۔ اس کا آغاز ہم ایوب کی کتاب سے کریں گے کیونکہ وہ ابرہام کا ہم عصر اور تاریخی اعتبار سے کہانی کی کتب میں اس کا شُمار پہلے ہوتا ہے۔ پیدائش کی کتاب بارہویں باب میں جب ہم ابرہام کے بارے میں سوچتے ہیں تویہی وہ وقت ہے جب ایوب کی کہانی بھی تاریخ میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ ایوب بائبل کی کہانی کو آگے لے کر نہیں چلتا اس لیے اس کو کہانی کی کُتب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایوب کی کِتاب اس سوال سے لڑتی ہوئی نظر آتی ہے کہ کیوں اچھے لوگ تکلیف اُٹھاتے ہیں۔ اُس کے پاس رہنُمائی کے لیے پُرانے عہد نامےکی شریعت نہیں تھی کیونکہ وہ موسیٰ سے کئی سو سال پہلے اپنی زندگی گُزاری۔ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے اس بات کو یاد رکھنے کو ضرورت ہے کہ ایوب کی خُدا کے بارے میں رائے ویسی نہیں تھی جیسی موسیٰ کی شریعت کے بعد لوگوں کی تھی۔ پھر بھی وہ ایمانداری کے ساتھ پرستش کرتا رہا۔ اس کی کتاب ہمیں ابراہام کے دورمیں زندگی کے بارے میں اضافی معلومات فراہم کرتی ہے اس کیے ہم اس کی کہانی کو ابراہام کی کہانی کے ساتھ یکجا کر سکتے ہیں۔

کہانی کی دوسری کتاب احبار کی کتاب ہے۔ کتاب کے آغاز میں پہلے چار الفاظ پر غور کریں، تو آپ کواس کے اندر موجود مواد کے بارے میں معلوم ہو جائے گا۔ لاویوں کے قبیلے کو خُدا نے چُنا کہ وہ خیمہ کے اندر خدمت کے فرائض انجام دیں ، تو یہ کتاب جس کے اندر اسرائیل کی ساری مذہبی رسومات کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اس کا نام احبار کی کِتاب رکھا گیا۔ کتاب بیان کرتی ہے کہ کس طرح سے قاہن خیمے میں اسرائیلی قوم کے لیے مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ اس احبار کو خروج کے بعد رکھا گیا۔جب آپ کوہِ سینا، دس احکام اور شریعت کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ وہ وقت ہے جس کا تعلق احبار کی کِتاب کے ساتھ ہے۔

استشنا کی کتاب کہانی کی کتاب کی تیسری کِتاب ہے۔ ایوب اور احبار کی طرح یہ تاریخ کو آگے لے کر نہیں چلتی، لیکن اسرائیل کے خاص دور کے بارے میں گہری سمجھ دیتی ہے۔ اِستِشنا کی کِتاب دو کِتابوں کے درمیان میںاپنی جگہ بناتی ہے ۔ گنتی کی کِتاب جس میں اسرائیل کا بیابان میں پھِرنا قلم بند ہے اور یشوع کی کتاب کنعان میں اسرائیل کے فتح کے بارے میں بتاتی ہے۔ کوہِ سینا پر دیا جانےوالا قانون موسیٰ نے احبار کی کِتاب میں دوبارہ دیا۔ اس بات کو یاد رکھیے کہ کنعان میں داخل ہونے والے لوگ وہ نہیں تھے جو مِصر سے آزاد ہوئے تھے۔ کیونکہ خروج کے اختتام سے یشوع کے آغاز تک چالیس سال کا فاصلہ ہے۔ موسیٰ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ نسل جان سکے کہ اُن کی زندگیاں خُدا کے احکام کی نِگرانی میں ہے۔ اِستِشنا کی کِتاب کہانی میں گنتی اور یشوع کے درمیان اپنی جگہ بناتی ہے۔

استشنا کے بعد کہانی کی اگلی کتاب ایک صدی کے بعد رونما ہوتی ہے۔ نوحہ کی کِتاب ٢ سلاطین کے بعد کہانی میں نظر آتی ہے۔ یروشلیم تباہ ہو چُکا تھا، لوگوں کی نافرمانی پر یرمیاہ کا نوحہ اور اُس کے نتائج اس میں درج ہیں۔ یروشلم کی تباہی ایک المناک حقیقت ہے اور اس کتاب میں ایک شکستہ دل نبی کا نوحہ درج ہیں۔ نوحہ کی کِتاب کو پڑھتے ہُوئے تباہ حال یروشلیم کا تصور ضرور کریں۔ جب آپ ٢ سلاطین کو پڑھتے ہیں تونوحہ کو یاد رکھیں۔

آستر کی کہانی عزرا کے دور میں قلم بند ہے اور اسرائیل کی تعمیرِ نو کے دور میں اہم وُسعت فراہم کرتی ہے۔ ستر سال بعد بابلیوں نے یہوداہ کو فتح کیا،فارسیوں نے یہودیوں کو جِلاوطنی سے آزادی بخشی اوراُن میں سے بُہت سے یہودی واپس یروشلیم کو لوٹ آئے۔ عزرا کی کِتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہیکل کی تعممیرِنو کے دوران یروشلیم میں کیسے حالات تھے۔ لیکن آستر کی کِتاب ہمیں اُن لوگوں کے بارے میں بتاتی ہے جنہوں نے اپنے لیے فارس میں رہنے کو چُن لیا۔ اُس کی کہانی ہمیں اُن لوگوں کا حال بتاتی ہے جو واپس نہ لوٹے، اور ہمیں سِکھاتی ہے کہ خُدا اپنے لوگوں کی ہرجگہ دیکھ بھال کرتا ہے۔

تاریخی اعتبارسے پہلا اور دوسرا تواریخ پُرانے عہدنامے کے آخر میں عزرا اور نحمیاہ کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ اِن کی توجہ کا مرکز داؤد کے خاندان کے بادشاہوں اور سلیمان کی ہیکل پر ہے۔ اس کا مقصد داؤد اور سلیمان کے چھ سوسال بعد یہوداہ کے حالات کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ بابل کی ستر سالہ غُلامی کے بعد، یہودا کے لوگ اپنی سرزمین کو لوٹ گئے۔ لیکن اب بھی اُن پر فارسی حکومت کرتے تھے۔ اُن کی ہیکل جو اُنھوں نے دوبارہ بنائی وہ سلیمان کی شاندار ہیکل کی ایک ادنیٰ سی نقل تھی۔ دُشمنوں نے اُن کو تنگ کیا اور وہ گُناہ جن کی وجہ سے وہ تباہ ہُوئے تھے پھِر اُن کی روزمرہ زندگی میں داخل ہونے لگے۔

مورخ اپنی کِتاب کو لِکھتے ہوئے اس بات کا یقین دِلاتا ہے کہ خُدا نے اپنے لوگوں کو اُن کے حالات کے باوجود نہ چھوڑا۔ ابراہام،موسیٰ اور خاص طور پر داؤد کے ساتھ کیے ہوئے وعدے اب بھی قائم ہیں اوراُن کو مسیحا کی اُمید کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اُن کا اصل رہنُما فارس کا بادشاہ نہیں بلکہ خُدا تھا۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ تھا۔ خُدا کے الفاظ نے اُن کواِنتباہ کروایا کہ خُدا کی برکت خودکارنہیں ہے۔ « تب اگر میرے لوگ جو میرے نام سے کہلاتے ہیں خاکسار بن کر دُعا کریں اور میرے دِیدار کے طالِب ہوں اور اپنی بُری راہوں سے پھریں تو میں آسمان پر سے سُنکر اُن کا گُناہ مُعاف کروںگا اور اُنکے مُلک کو بحال کردونگا»۔ (٢ تواریخ ٧ باب ١٤ آیت) خُُدا نے اسرئیل کو ترک نہ کیا۔ تواریخ کی کتاب میں درج تاریخ یاد دِلاتی ہے کہ اُن کی فلاح وبہبود کی بُنیاد خُدا کی شریعت کے ساتھ وفاداری تھی جو انبیا کے ذریعے سے دی گئی۔

یہ کہانی کی کُتب ہیں جن کو ہم نے تاریخ میں اس طرح رکھا ہے کہ یہ ہمیں اسرائیل کی تاریخ کے بارے میں مزید معلومات دے سکیں۔اب ہم کِتابوں کی مزید دو اقسام کو دیکھیں گے۔ اسرئیل کی تاریخ اور حکمت اور انبیا کی کُتب پر غور کریں گے۔

شاعری اور حکمت کی کُتب

اسرئیل کی حکمت اور شاعری کی کُتب کو کئی صدیوں میں بہت سے لِکھاریوں نے قلم بند کیا۔ موسیٰ نے زبور ٩٠ لکھا جو کہ ابتدا کا زبور ہے۔ زبور ١٣٧ نیا زبور تھا جوکہ بابل میں اسیری کے وقت لِکھا گیا۔ ہم سبق نمبرآٹھ میں ایوب، زبور، امثال، غزل وغزلات اور واعظ کی کُتب پر غور کریں گے۔ اس سبق میں ہم یہ دیکھیں گے کہ ان کِتابوں نے پُرانے عہد نامے میں کس طرح سے اپنا حصہ ڈالا۔ اس علم نے اسرائیل کی ساری تاریخ کے دوران اُن کی پرستش اور تعلیم میں اپنا کردار اداد کیا اور یہ صرف کسی خاص وقت پر مُحیط نہیں تھی۔ کیونکہ ان کے اندر موجود زیادہ مواد کا تعلق داؤد اور سلیمان سے ہے اس لیے ہم ان کِتابوں کو تاریخ میں اُن کے دور کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

انبیا کی کُتب

پہلا سلاطین بارہ باب سے لے کر نحمیاہ تک اسرائیل کی تقسیم کی تاریخ کو سولہ انبیا نے قلمبند کیا۔ یہ سولہ نبی اور بُہت سے انبیا کی نُمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل میں خدمت کی لیکن اُن کے استقرارِ حق کو علیحدہ کُتب میں درج نہیں کیا گیا۔ مِثال کے طور پر ایلیاہ اور الیشع،جو کہ اسرائیل کے بڑے مشہور نبی تھے لیکن اُن کے نام سے کوئی بھی الہامی کِتاب منصوب نہیں ہے۔

منقسم سلطنت کے دور میں جو پہلے سلاطین سے لیکر دوسرے سلاطین کے آخر میں قلم بند ہے بارہ انبیاہ نے خدمت کی۔ان بارہ میں سے حزقی ایل تھا جس نے جلاوطنی کے دور میں بھی خدمت جاری رکھی۔ دانی ایل کی خدمت کا بھی یہی دور تھا۔ حجی، زکریاہ اور ملاکی نے تعمیرِنوکے دور میں خدمت کی۔ سبق نمبر دس میں انبیا کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں گے۔ خُدا کی تعلیمات پر اسرائیل اور یہوداہ کو چلانے کے لیے مخلوط نتیجے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وقت کے ساتھ جب اُن کی المناک کہانی سامنے آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے اسرائیل اور یہوداہ نے انبیا کی تعلیمات کو نظرانداز کیا تباہی کی طرف بڑھتے گئے۔

نتیجہ

تو یہ پُرانا عہدنامہ ہے۔ تاریخ کی گیارہ کتابیں کہانی کو بیان کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ کہانی کی کتابوں کو مزید تفصیل کے لیے شامل کیا گیا تاکہ ہم جان سکیں کہ تاریخ کے اُس دور میں کیا ہو رہا تھا۔ اسرائیل کی شاعری اور حکمت کو اُن کی تاریخ کے ساتھ محفوظ کیا گیا اور یہ اُن کی ثقافت اور مذہبی رسومات کا حصہ تھا۔ جب اسرائیل کی سلطنت دو حصوں اسرائیل اور یہوداہ میں مُنقسم ہو گئی تو انبیا نے تعلیم دینی شروع کردی اور یہ پُرانے عہدنامے کے آخر تک جاری رہا۔

جب آپ ان ساری کتابوں کو اکٹھا کرتے ہیں تو آپ کو کیا ملتا ہے؟ مجموعی طور پر یہ کس بارے میں ہیں؟ پُرانا عہدنامہ ہمیں بتاتا ہے کہ خُدا نے ہمیں اپنی شبیہ پر بنایا تاکہ ہم اُس کے ساتھ ایک گہرے رشتے کا لُطف اُٹھا سکیں۔ افسوس کے ساتھ جب پیدائش تین باب میں گناہ مُتعارف ہوا تو اس نے خُدا کے لوگوں کی زندگیوں کو سارے پُرانےعہدنامے میں آلودہ کردیا اور آج بھی ہمیں آلودہ کرتا ہے۔

لیکن انسانی ناکامی اس کہانی کا مرکزی خیال نہیں ہے۔ خُدا جو پیغام ہمیں پُرانےعہدنامے میں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ بیشک ہم ناکام بھی ہوجائیں پھر بھی ہم فضل کرنے والے خُدا کی خدمت کرتے ہیں جو کہتا ہے « میرے پاس لوٹ آؤ تو میں تمہیں معاف کردوں گا۔ میں تمہیں خوش آمدید کہوں گا۔ میں نے تمہیں مُخالفت کے لیے پیدا نہیں کیا بلکہ مُحبت اور تعلق کے لیے»۔ اگر پُرانے عہدنامےکو پڑھتے ہوئے ہم اس بات کو نہیں سمجھتے تو ہم نے اس کے خاص نُقطے کو کھو دیاہے۔