window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

لیکچر

تعارف

پُرانے عہدنامے کی تاریخ کے ابتدائی دور کا اختتام دریائے یردن کے کنارے ہوتا ہے جب اسرائیلی وعدے کے مُلک میں داخلے کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ اِس نسل نے خُدا کا بھیجا ہُوا من کھایا تھا اور یہ تیار تھے وعدے کے مُلک میں جانے کے لیے جس کا وعدہ خُدا نے ان کے باپ ابراہام سے کیا تھا۔

پُرانے عہد نامے کے اگلے دور کو ہم آبادکاری کا دور کہیں گے کیونکہ تاریخ کی کتابیں یشوع اور قضاۃ اور کہانی کی کتابیں روت اور استشنا ہمیں اسرائیل کی وعدے کے مُلک پر چڑھائی اور آبادکاری کے بارے میں بتاتی ہیں۔ آبادکاری کے دور کی صحیح تاریخ کا تعین کرنا ممکن نہیں لیکن یہ چار سو سال کے عرصے پر مُحیط ہے۔ یہ جاری رہا یشوع کے مُختار نامے سے لے کر قضاۃ کے مُشکل دور تک اور پھر بادشاہت کے دور کی مُنتقلی تک۔

آبادکاری کا دور تین بڑی کہانیوں کے بارے میں بتاتا ہے۔ پہلے استشنا کی کتاب خُدا اور اسرائیل کے درمیان عہد کو بیان کرتی ہے جس نے اُن کو وعدے کے مُلک میں رہنے کے لیے تیار کیا۔ دوسرا یشوع نے اسرائیلی قوم کی رہنُمائی کی کہ وہ اپنے مُلک کا قبضہ لے سکیں، اُس کو بارہ قبیلوں کے درمیان تقسیم کیا اور اس میں آباد ہوئے۔ قصاۃ میں اسرائیل کی خُدا کے خلاف بغاوت اور گناہ کا نتیجہ درج ہے۔ روت کی کتاب ہمیں اُن لوگوں کی وفاداری کے بارے میں بتاتی ہے جو قصاۃ کے مُشکل دور میں وفاداررہے۔

یشوع

یشوع کی کتاب کامیابی کی کتاب ہے۔ کتاب کا مقصد خُدا کے وعدے کی تکمیل کو ظاہر کرنا ہے جو خُدا نے ابراہام سے کیا، کہ وہ اُس کی نسل کو مُلک دے گا۔ اس کتاب کا بڑا مقصد یہ ہے کہ خُدا تابعداری کا بدلہ دیتا ہے۔ اُس نے اُن کی رہنمائی کی، حفاظت کی جب اُنھوں نے اپنی سرزمین کو دوبارہ حاصل کیا۔

یشوع کی کتاب اسرائیل کی کہانی کو یشوع ١ باب میں اختیار نامے سے لے کر ٢٤ باب میں اُس کی وفات تک بیان کرتی ہے۔ اس میں تین بڑی تحریکیں ہیں۔ پہلی اسرائیل نے خُدا کی حفاظت میں اپنی زمین کو فتح کیا (باب ١-١٢) ۔ زمین کو قبیلوں میں تقسیم کیا اور لاویوں کے لیے شہروں کا انتخاب کیا ( ١٣-٢١)۔ کتاب کا اختتام یشوع کے دو خُطبوں سے ہوتا ہے باب نمبر ٢٢-٢٤ میں ۔ وہ خُدا کی وفاداری کا ازسرِنوجائزہ لیتا ہے ابراہام سے لے کر موجودہ دور تک، اور خُدا کی وفاداری کو بُنیاد بناتی ہُوئے وہ اسرائیل کو خُدا کی شریعت کے مُطابق زندگی بسر کرنے کو کہتا ہے۔

یشوع اس کتاب میں مرکزی کردار ہے۔ پہلے اُس کا تعارف خروج کی کتاب سترہ باب میں فوجی قائد کے طور پر ہُوا۔ جب خروج ٢٤ باب ١٣ آیت میں کوہِ سینا پر خُدا نے اسرائیل کو شریعت دی تویشوع وہ واحد شخص تھا جس کو موسیٰ کے ساتھ کوہِ سینا پر جانے کی اجازت ملی۔وہ اور کالب وہ دو جاسوس تھے جنہوں نے اسرائیل کوخُدا پر بھروسہ رکھتے ہُوئے کنعان پر حملہ کرنے کے لیے قائل کیا۔

یشوع ١-١٢ ابواب میں یشوع کو خُدا کی طرف سے مُختارنامہ دیا گیا تاکہ وہ وعدے کے مُلک کی طرف اسرائیل کی رہنُمائی کرسکے۔ کتاب میں مزید رقم ہے اسرائیل کےدریائے یردن کو پار کرنا، یریحو کی شکست، اور بُہت سی فتوحات جو اسرائیل کو وعدے کے مُلک کو حاصل کرتے ہُوئے مِلیں۔

پھر ١٣-٢١ باب بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے اسرائیل نے زمین بارہ قبیلوں کو بانٹی۔ یشوع کی دو اُبھارنے والی تقاریر اور اسرائیل کا مُثبت جذبے کا اظہار۔ یشوع نے اسرائیل کو اُبھارا کہ وہ خُدا کے خوف کو مانے اور خُدا کی خِدمت پوری ایمانداری کے ساتھ کرے۔ اُس نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے درمیان سے بُتوں کو دور کردیں اور خُدا کے پیچھے چلنے کا باشعور انتخاب کریں۔ اُس نے اپنے انتخاب کو اُن کے سامنے یہ کہ کر واضح کردیا “ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خداوند کی پرستش کریں گے” (یشوع ٢٤ باب ١٤-١٥)۔ لوگوں نے جواب دیا “ اور اسرائیلی خدا کی پرستش یشوع کے جیتے جی اور ان بزرگوں کے جیتے جی کرتے رہے جو یشوع کے بعد زندہ رہے اور خداوند کے سب کاموں سے جو اس نے اسرائیلیوں کے لئے کئے واقف تھے” (یشوع ٢٤ باب ٣١)۔

قضاۃ

قضاۃ کی کتاب ١ باب ١ آیت یشوع کی تحریر کو جاری رکھتی ہے اور آبادکاری کے دور کی دونوں کتابوں کو اِکٹھا کرتی ہیں۔ «اور یشوع کی موت کے بعد یوں ہوا کہ بنی اسرائیل نت خداوند سے پوچھا کہ ہمای طرف سے کنعا نیوں سے جنگ کرنے کو پہلے کون چڑھائی کرے» ؟ قضاۃ ١:١-٢٦ میں مُختلف قبائل کا اپنے علاقوں کی زمین کو فتح کرنے کا ذکر قلمبند ہے۔ قضاۃ ١:٢٧ میں یکسر تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے اور قبائل کی ایک فہرست دی گئی ہے جس میں اُن کے نام ہیں جنہوں نے خُدا کا فیصلہ جو کنعانیوں کو نِکالنے کے لیے تھا نافرمانی کی۔ خُدا نے اسرائیلیوں کو کنعانیوں کے ساتھ رہنے اور اُن کی مذہبی رسومات میں شرکت سے منع کیا تھا۔ لیکن قضاۃ ٢ باب ١١ آیت بتاتی ہے «اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے» ۔ قضاۃ کی کہانی اسرائیل کی نافرمانی اور خُدا کی عدالت کے موضوع کی یاد دہانی کرواتی ہے۔

خُدا کے ساتھ کیے وعدوں کی نافرمانی اوراسرائیل کا اپنی نافرمانی کے باعث مُصیبت برداشت کرنا قضاۃ کی کتاب کا مرکزی خیال ہے۔ کتاب کا مقصد اس بات کو ظاہر کرنا ہے کہ یشوع کے دور اور داؤد بادشاہ کی بادشاہت میں ملنے والی کامیابی کے دوران کیا ہُوا۔ کتاب کے بڑے کردار اس کے قاضی ہیں۔ بیشک کتاب میں بارہ قاضیوں کا نام ہے، لیکن چھ کا کردار مرکزی نظر آتا ہے کیونکہ اُن کی کہانیاں بڑی تفصیل کو ساتھ بیان کی گئی ہیں. غُتنی ایل،اہُود، دبورہ، حجی، اِفتاح اور سمسون قاضیوں کے دور کے مرکزی کردار ہیں۔

کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے۔ تعارف میں درج ہے کہ اسرائیل پورے طور سے اپنے مُلک کو فتح نہ کرسکے (١ باب ١-٢ اور ٥آیت)۔ کتاب کا بڑا حصہ چار دفعہ اسرائیل کی نافرمانی کو دُہراتا ہے۔ (١) اسرائیل کے گُناہ کو بیان کیا۔ خُدا نے اُن کی عدالت کے لیے اُن کے پڑوس میں رہنے والی قوم کو خُدا نے بھیجا کہ اُن کو ستائے۔ (٣) اسرائیل نے توبہ کی (٤) خُدا نے اُن کی رہائی کے لیے ایک بہادرشخص کوبھیجا جس کو قاضی کہتے تھے۔ قضاۃ ٢ باب ٦-١٦ سے ٣١ تک چھ دور درج ہیں۔ ہر ایک دور کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے «بنی اسرائیل نے خُدا کے آگے بدی کی» (٣ باب ٧، ١٢؛ ٤ باب ١۔، ٦ باب ١،١٠ باب ٦، ١٣ باب ١)

قضاۃ کےاختتامی ابواب ١٧-٢١ اسرائیل کی مذہبی اور سماجی زندگی کی گراوٹ کو بیان کرتے ہیں۔ خُدا کے لوگوں نی اُس کو بطور بادشاہ رد کردیا تھا اور یہ پانچ ابواب اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ کہ زندگی کتنی ہولناک ہو چُکی تھی۔ کہانی کےاس حصے کا آغاز اور اختتام اس اعلان سے ہوتا ہے « ان دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہ تھا اور ہر شخص جو اس کی نظر میں اچھا معلوم ہوتا وہی کرتا تھا» ( ١٧باب ٦ آیت، ٢١ باب ٢٥ آیت)۔ اور یہ بیان کہ «ان دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہ تھا» ١٨ باب ١ اور ١٩ باب ١ میں دو دفعہ دُہرائی گئ ہے۔ مُصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ جب اسرائیل نے خُدا کو رد کردیا تو اُن کے ساتھ کیا ہُوا۔ بادشاہ اور حکوت کے بغیر خُدا کی چُنی ہوئی قوم اور ساری برکات کے باوجود اسرائیل کا رویہ خطرناک اور بربریت سے بھرپور ہوچُکا تھا۔ قضاۃ کی کِتاب اِسرائیل کی بادشاہت کے دوران لِکھی گئی اوربتاتی ہے کہ کیوں اوراسرائیل کو بادشاہ کی ضرورت تھی جو اُن پر حکومت کرے۔

اِستشنا

قضاۃ اور یشوع کی کتابیں اسرائیل کی کہانی کو آگے بڑھاتے ہُوئے آبادکاری کے دور میں لے کر داخل ہوتی ہیں۔ کہانی کی کتابوں میں اہم تفصیل اِستشنا اور رُوت کی کِتابوں کی ذریعے سے شامل کی گئی۔ استشنا کی کتاب پُرانے عہد نامے کی ایک اہم دستاویز ہے جو موسیٰ کے دور سے لے کر پُرانے عہد نامے کی تاریخ اور مذہبی عہد کو بیان کرتی ہے۔ کتاب کے واقعات گنتی کی کتاب کے آخر میں رونُما ہُوئے۔ استشنا کا مرکزی خیال موسیٰ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

دیکھ میں نے آج کے دن زندگی اور بھلائی اور موت اور بُرائی کو تیرے آگے رکھا ہے۔ کیونکہ میں آج کے دن تجھ کو حکم کرتا ہوں کہ تُو خداوند اپنے خدا سے محبت رکھے اور اُسکی راہوں پر چلے اور اُسکے فرمان اور آئین اور احکام کو مانے تاکہ تُو جیتا رہے اور بڑھے اور خداوند تیرا خدا اُس ملک میں تجھ کو برکت بخشے جس پر قبضہ کرنے کو تُو وہاں جا رہا ہے ۔ پر اگر تیر ا دل برگشتہ ہو جائے اور تو نہ سُنے بلکہ گمراہ ہو کر اور معبودوں کی پرستش اور عبادت کرنے لگے - تو آ ج کے دن میں تُم کو جتا دیتا ہوں کہ تُم ضرور فنا ہو جاؤ گے اور اُس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کو تُو یردن پار جا رہا ہے تمہاری عمر دراز نہ ہوگی۔ (استشنا ٣٠ باب ١٥-١٨ )

موسیٰ اِستشنامیں خُدا کی تابعداری اور نافرمانی کی صورت میں برکت اور لعنت کی تجویز کو بیان کرتاہے ۔ یہی اِستشنا کا مرکزی خیال ہے۔

یشوع اور قضاۃجو کہ پُرانے عہدنامے کی اگلی کتابیں ہیں استشنا کے اس اُصول کو واضع طور پر بیان کیا ہے۔ اسرائیل نے یشوع کی رہنُمائی میں خُدا کی اطاعت کی اور خُدا نے اُن کی حفاظت کی اور اُن کو برکت دی۔ خُدا کی نافرمانی کے باعث اسرائیل کی جو ناکامی اور مایوسی تھی وہ قضاۃ کی کِتاب میں قلم بند ہے۔ اِستشنا میں وضع کیا گیا اُصول اسرائیل کے بادشاہوں کی تابعداری اور نافرمانی کے باعث اسرائیل کو تباہی اور غیر قوم کے ہاتھوں میں غُلامی کی طرف لے گیا،۔

اِستشنا کی کِتاب کو موسیٰ کے اسرائیل کو دیے گئے تین بیانات پر ترتیب دیا گیا ہے۔ موسیٰ کا پہلا بیان ١ باب ١-٤ اور ٤٣ آیت میں قلم بند ہے، موسیٰ خُدا کی وفاداری کو دُہراتی ہے۔ دوسرا بیان ٤ باب ٢٨-٤٤ آیت میں قلم بند ہے، اورکوہِ سینا پر دیے گئے دس احکام کی بُنیاد پر دیے گئے مرکزی قوانین کو ترتیب دیتا ہے۔ تیسرا بیان ٢٩ -٣٣ باب میں موسیٰ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے خُدا کی برکت اور لعنت کو، فرمانبرداری اور نافرمانی کی صُورت میں۔ اِن ابواب کو استشنا کے اُصول بھی کہا جاتا ہے جو اسرائیل کے کردار کی تاریخ کو قوانین کے دیے جانے سے لیے کر پُرانے عہد نامے کے اختتام تک بیان کرتے ہیں۔ اِستشنا ٣٤ میں موسیٰ کی وفات کا ذِکر ہے۔

اِستشنا میں موسیٰ مرکزی کردار ہے۔ لیکن اس بات کو یاد رکھنا ٖضروری ہے کہ اُس کی تقاریر اسرائیل کے شہری جو مصر سے نکلے اُن کی اولاد کو پُہنچائی گئیں۔ اِن بیانات کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کی یہ نسل خُدا کے مقصد کو شخصی طور پر جان سکے کہ خُدا اپنے قوانین کے ذریعے سے اُن کو نئے مُلک میں کامیابی کے لیے تیار کررہا ہے۔ کِتاب میں زیادہ دھیان ٦باب ٤-٥ آیت میں اسرائیل کے مذہبی کلمے”شیما” پر ہے۔”سُن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ” ۔ یہ مُشکل بیان اس بات کی بُنیاد قائم کرتا ہے کہ اسرائیل کا خُدا کون تھا، وہ واحد خُدا تھا، اور وہ تعلق جو وہ اپنے اور اپنی قوم کے درمیان قائم کرنا چاہتا تھا اُس کی بُنیاد مُحبت تھی۔

روت

آبادکاری کے دور میں دوسری کہانی کی کتاب ناکامیوں کے دور میں ایک کامیابی کی کہانی ہے۔ کہانی کے اِبتدائی الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ واقع کب ہُوا، «اور ان ہی ایّام میں جب قاضی انصاف کیا کرتےتھے» (روت ١ باب ١ آیت)۔ روت کی کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ بیشک اسرائیل نےخُدا کی شریعت کی نافرمانی کی لیکن خُدا نے انفرادی طور پر اُن کو برکت دی جو اُس کے فرمانبردار تھے۔ اس کے مرکزی کردار نعومی، روت اور بوعز۔ ١ باب ١-٥ میں نعومی اور اُس کے خاندان نے قحط کی وجہ سے موآب کے علاقے کو ہجرت کی۔ نعومی کے ایک بیٹے نے ایک موآبی عورت جس کا نام روت تھا شادی کی۔ نعومی اپنے شوہر اور بیٹے کی وفات کے بعد بیت لحم کو لوٹ گئی ( ١ باب ٦-٢٢)۔

کہانی کے درمیانی حصے ٢ باب ١-٤ اور ١٢ میں درج ہے کہ روت نے ایک دین دار شخص جس کا نام بوعزتھا شادی کی اور اُن کا ایک بیٹا تھا۔ نعومی رُوت اور بوعز کے بیٹے عُبید کو اُٹھائے ہُوئے ہے اور یہاں پر کہانی کا اِختتام ہو جاتا ہے۔ پھر اس کہانی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔ رُوت ٤ باب ١٦-٢٢ آیت بتاتی ہے کہ عُبید یسی کا باب تھا جو کہ داؤد کا باپ تھا۔ خُدا نے رُوت اور نعومی کی وفاداری کا جواب بڑی خُوبصورتی سے دِیا۔ اُس نے روت کو اُس کا خیال رکھنے کے لیے ایک شوہر دیا اور اُن کو ایک بیٹا دیا۔ خُدا نے اس موآبی عورت کو جس نے خُدا کے حُکم کو مانا خُدا نے اُس کو داؤد کے خاندان سے جوڑ دیا۔ کیونکہ وہ داؤد کے خاندان سے تھی اس لیے وہ اس لیے وہ آنے والے مسیح کے آباؤاجداد میں سے تھی۔ متی مسیح کے نسب نامے کو لِکھتے ہُوئے اُس میں رُوت کے نام کو بھی شامِل کرتا ہے (متی ١ باب ٥ آیت)۔

استشنا کے احکام کی حُکمرانی میں آبادکاری کی دور میں تابعداری کی برکات کا ذکر یشوع اور روت میں ہے اور ناکامی کی کہانیاں قضاۃ میں۔ قاری کو آبادکاری کے دور کے بارے میں اِحتیاط کے ساتھ غور کرنے کا موقع دیتی ہیں۔