window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);} gtag('js', new Date()); gtag('config', 'G-C7RXD4CHSH'); (function(w,d,s,l,i){w[l]=w[l]||[];w[l].push({'gtm.start': new Date().getTime(),event:'gtm.js'});var f=d.getElementsByTagName(s)[0], j=d.createElement(s),dl=l!='dataLayer'?'&l='+l:'';j.async=true;j.src= 'https://www.googletagmanager.com/gtm.js?id='+i+dl;f.parentNode.insertBefore(j,f); })(window,document,'script','dataLayer','GTM-MQSSHFT');

لیکچر

تعارُف

اِس سبق میں ہم بائبل کے بڑے گہرے علم کے خزانے کا مُطالعہ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کہیں پر بھی لکھے گئے علم سے خُوبصورت ہے۔ اس سبق میں ہم اسرائیل کی پُرانے عہد نامے کی شاعری کے بارے میں پڑھیں گے۔ پُرانے عہد نامے کی پانچ کتابیں ایوب، زبور، امثال، غزل وغزلات اور نوحہ مُکمل یا جُزوی طور پر شاعری کے انداز میں لِکھی گئی ہیں۔ کہانی کی کئی کتابوں میں شاعری ہے لیکن پُرانے عہدنامے میں یسعیاہ کی کتاب میں سب سے خوبصورت شاعری موجود ہے۔ پُرانے عہد نامہ پیدائش سے ملاکی تک شاعری سے مالامال ہے۔

پُرانے عہد نامے کی شاعری کے کردار

شاعری صاف زبان ہے۔ بیشک سادہ طرزِ بیان اس کا واضع انداز ہے، لکین شاعری کو اس انداز میں لِکھا جاتا ہے کہ پڑھنے والا شاعر کو سمجھ سکے۔ پیغام کو اِس طرح سے لِکھا جاتا ہے کہ نظم کو پڑھنے والا خُود پیغام کو سمجھ سکے۔ صاف طریقے سے بیان کرنے کے لیے شاعر کو الفاظ کے چُناؤ کے لیے بُہت مِحنت کرنا پڑتی ہے۔ اُسے سطروں کو اس طرح سے لِکھنا پڑتا ہے کہ اُن کا آپس میں ایک تعلق ہو۔ شاعر اس اُمید سے لِکھتا ہے کہ نظم کو پڑھنے کے بعد قاری تک جو سچائی کا پیغام پہنچے وہ موجودہ سچائی سے بڑھ کر ہو۔ اس لیے اگر آپ پُرانے عہد نامے کی شاعری کو جلدے سے، بُہت کم پڑھیں گے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو اس عمل کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔

متوازیت

پُرانے عہد نامے کی شاعری آج کے دورکی شاعری جیسی نہیں ہے۔ اس میں قافیہ یا کوئی پیمائش کا آلہ نہیں ہوتا تھا۔ پُرانے عہد نامے کی شاعری میں متوازیت کا استعمال ہوتا تھا۔ شاعر ایک سطر کو لِکھنے کے بعد دوسری سطر کو اس طرح سے لِکھتا ہے کہ دونوں میں ہم آہنگی ہو اور ایک دوسرے پر اپنا تاثر چھوڑیں۔ ہم دونوں سطروں کے مُوازنے کے بعد مطلب کو سمجھ سکتے ہیں۔ مطلب سطروں کے درمیان میں ہی ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آگ جلانے کے لیے لکڑیوں کو اِکٹھا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح سے عبرانی شاعری میں مطلب کو جاننے کے لیے سطروں کو اِکٹھا رکھا جاتا ہے۔ شاعری مسیح خُداوند کی تمثیل کی طرح سچائی کو اس طرح سے بیان کرتی ہے کہ پڑھنے اور سُننے والا اُس کا حصہ بن جاتا ہے۔ مُصنف کا پیغام موجود ہوتا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ پڑھنے والا اُس کو تلاش کرے۔

زبور ١١٨ کی پہلی آیت عبرانی شاعری کی طرح دو سطروں پر مُشتمل ہے۔ پہلی سطر میں لِکھا ہے « خُداوند کا شُکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے۔ «۔ زبور نویس چاہتا ہے کہ ہم خُدا کی شُکرگُزاری کریں اور وہ اس شُکرگُزاری کی وجہ بھی بیان کرتا ہے۔ پھر وہ اس میں دوسری سطر کا اِضافہ کرتا ہے جو پہلی سطر کو اور زیادہ واضع کرتی ہے۔ «اور اُسکی شفقت ابدی ہے» دوسری سطر پہلی سطر کے خیال کو بیان کرتی ہے، تو اب ہمارے پاس شاعر کا اصرار اور وضاحت دونوں موجود ہیں۔ عبرانی شاعری کو پڑھنے کے لیے ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ سطروں کا آپس کا تعلق کیا ہے۔

متوازیت کی تین اِقسام

عبرانی شاعری میں تین طرح کی مُتوازیت پائی جاتی ہے۔ کئی دفعہ اس تعلق کو ہم معنی متوازیت کہتے ہیں کیونکہ مُصنف اپنے پہلی سطر والے نُقطے کو دوسری سطر میں بھی دُہراتا ہے۔ زبور ٢٤ کی ١ آیت میں پہلی سطر بیان کرتی ہے « زمین اور اُس کی معمُوری خُداوند ہی کی ہے»۔ اور دوسری سطر «جہان اور اُس کے باشندے بھی»۔ یہ ہم معنی متوازیت ہے۔

شاعری کی کُچھ آیات میں ایک دوسرے کا مُوازنہ نظر آتا ہے۔ جب آپ ایک لفظ کو دیکھتے ہیں جو دوسری سطر کا تعارف کروا رہا ہو تو جان لیں کہ آپ ایک ایسی آیت کو پڑھ رہے ہیں جو مُتضاد ہے۔ زبور ١ کی ٦ آیت «کیونکہ خُداوند صادقوں کی راہ جانتا ہے» دوسری سطر صادق کے مُتضاد کو بیان کرتی ہے، « پر شِریر وں کی راہ نابُود ہو جائیگی» ۔

متوازیت کی تیسری قِسم میں دوسری سطر پہلی کو مُکمل کرتی ہے۔ زبور ٢ کی ٦ آیت میں لِکھا ہے « میں تو اپنے بادشاہ کو بٹھا چُکا ہوں»۔ اور دوسری سطر «کوہِ مُقدس صِیون پر» خیال کو مُکمل کرتی ہے۔ اِس کو مصنوعی مُتوازیت بھی کہتے ہیں۔ یہ کئی دفعہ دو سطروں کا مُوازنہ کرتا ہے۔ زبور ٤٢ کی ١ آیت « یسے ہرنی پانی کے نالوں کو ترستی ہےویسے ہی اُے خُدا!میری روح تیرے لِئے ترستی ہے»۔ پہلی اور دوسری سطر کُچھ موازنہ کرتی ہیں۔ اس لیے عبرانی شاعری کو پڑھتے ہُوے یہ سوال کریں کہ سطروں کے درمیان میں کیا تعلق ہے؟۔

شاعری کی کُتب

امثال اور ایوب، شاعری کی پانچ میں سے یہ دو کُتب حکمت کی ہیں۔ اس بات کو یاد رکھیں کہ شاعری میں مُصنف جو کہتا ہے وہ اہم ہے مگر کس طرح سے کہتا ہے یہ زیادہ ضروری ہے۔ اگلی سبق میں ہم امثال اور ایوب کی کتاب کا مُطالعہ کریں گے کیونکہ اُن کو شاعری کے طور پر لِکھا گیا لیکن ان کی تحریر حکمت پر مشتمل ہے۔

زبور

زبور کی کتاب اسرائیل کی تاریخ کے بُہت سے سالوں میں لکھی گئی۔موسیٰ نے زبور نوے اُس دور میں لِکھا جب گنتی کی کتاب کے مُطابق اسرائیلی قوم بیابان میں خانہ بدوشی کی حالت میں تھی. زبور ١٣٧ آخری زبور ہے جس کو بابل میں جِلاوطنی کے دور میں لکھا گیا۔ داؤد نے بُہت سے زبور لکھے اور بہت سے جمع کیے۔ گو کہ یہ زبور صدیوں پر مُحیط اسرائیل کی تاریخ کے دوران لِکھے گئے، لیکن ہم ان زبوروں کو تاریخ کی کتابوں بادشاہت کے دور میں دیکھتے ہیں۔

کُچھ زبور دُعا کا اظہار کرتے ہیں۔ کُچھ رہائی کی شُکرگُزاری کے زبورہیں۔ کُچھ خُدا کی طاقت پر بھروسے کے زبور ہیں کہ وہ ہمیں مُشکل سے آزاد کرے گا۔ اسی لیے زبورنویس کئی زبوروں کے آغاز میں اپنی مُشکل کو خُدا کے حضُور رکھتا ہے اور زبور کے آخر میں اعتماد کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہوئے خُدا کا شُکر ادا کرتا ہے کہ وہ اُس کو مُشکل سے رہائی دے گا۔

کُچھ زبور دُعا کا اظہار کرتے ہیں۔ کُچھ رہائی کی شُکرگُزاری کے زبورہیں۔ کُچھ خُدا کی طاقت پر بھروسے کے زبور ہیں کہ وہ ہمیں مُشکل سے آزاد کرے گا۔ اسی لیے زبورنویس کئی زبوروں کے آغاز میں اپنی مُشکل کو خُدا کے حضُور رکھتا ہے اور زبور کے آخر میں اعتماد کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہوئے خُدا کا شُکر ادا کرتا ہے کہ وہ اُس کو مُشکل سے رہائی دے گا۔

کُچھ زبوروں میں زبورنویس خُدا کے ساتھ شکوہ کرتا ہے اور کُچھ میں اپنے دُشمنوں کے لیے سخت الفاظ کا استعمال کرتاہے۔ زبوروں سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کو ہم ایمانداری، اعتماد اور صاف صاف خُداکے ساتھ نہ کریں۔ اس بات پر یقین کرنا مُشکل ہے کہ کوئی بھی خُدا کو کُچھ بھی کہ سکتا ہے۔ لیکن زبور ١٣٩ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خُدا ہمارے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہمارے ذہنوں میں کیا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم اُن باتوں کو اپنی زبان پر لائیں۔ سب کچھ جاننے والا خُدا ہمارے سخت اور بُرے خیالوں کو جانتا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہمیں اُن سے چُھٹکارا حاصل کرنےکی ضرورت ہے نہیں تو یہ خیالات ہمارے ذہن کو زنگ آلود کرسکتے ہیں۔ جب ہم خُدا کے ساتھ غصے میں ہوتے ہیں یا مایوسی کا شکار ہوتے ہیں تو خُدا ہمیں یہ کہتا ہے کہ آؤمُجھے بتاؤکہ تم کیا سوچتے ہو، آؤ اس پر بات کریں اور اس کا حل ڈھونڈیں۔

غزل و غزلات

ایک اور شاعری کی کتاب ہے جس کا نام غزل وغزلات ہے۔ کُچھ پڑھنے والوں کے لیے یہ ایک مُشکل کتاب ہے۔ یہ ایک جوان مرد اور عورت کی کہانی ہے جو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ ان کی مُحبت اور شادی کی کہانی کو شاعری کے خُوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اُن کی مُحبت کے اروج اور شادی کے بعد ایک دوسرے کے لیے تڑپ کو بیان کرتی ہے۔

کتاب شادی کے ذریعے سے اُن کی جنسی ضرورت کی تکمیل کو شعرانہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ رشتے میں مُشکل نظر آتی ہے لیکن اُس کے حل کے بعد کتاب اِختتام پذیر ہوتی ہے۔ آپ یہ سوال کرینگے کہ اس کتاب کو بائبل کا حصہ کیوں بنایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ خُدا نے اس کو ہماری زندگیوں کے ایک اہم حصے کو سمجھانے کے لیے رکھا ہو۔ خُدا کو اس بات سے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی کہ اُس نے ہم کو کیسا بنایا ہے۔ پیدائش کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ رشتہ ازدواج میں جنسی تعلق کا مقصد افزائش نسل ہے۔ ہم ١ کرنتھیوں ٧ باب میں پڑھتے ہیں کہ شادی شُدہ زندگی میں اگر جنسی تعلق صحت مند ہو تواس کی وجہ سے مرد یا عورت کو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئی اور تعلق قائم نہیں کرنا پڑتا۔ یہ ایک خُوبصورت کہانی ہے جس کو شاعری کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ جب آپ اس کہانی کو پڑھتے ہیں تو آپ کو شاعر کے ساتھ مُحطاط انداز سے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس کہانی سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

نوحہ

دُکھ کی کتاب جس کا نام ہوحہ ہے شاعری کی تیسری کتاب ہے۔ ہم نےپُرانے عہدنامے کے اس نصاب میں نوحہ کی کتاب کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ مُختلف طرح سے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔یہ کہانی کی کتاب کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہے، جب یرمیاہ نے یروشلم کی تباہی کو دیکھا تو اور وہ مایوس ہُوا۔ اس کا شُمار پیش گوئی کی کتابوں میں بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کو یرمیاہ نبی نے لِکھا۔ اور اس کو شاعری کی کتابوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی تحریر کا انداز شاعرانہ ہے۔

نتیجہ

پُرانے عہد نامے کی شاعری خُدا کے بارے میں خیالات کو بڑے فِکرانگیز انداز میں گہرے طور سے پیش کرتی ہے۔ شاعروں نے خُدا کو اس انداز میں پیش کیا کہ اس انداز کو کہیں اور استعمال نہیں کیا گیا۔ جب ہم وقت نِکال کر شاعر کے پیغام کو سُنتے ہیں تو خُدا کی شریعت کے وسیلے سے مسرور ہوتے ہیں۔ خُدا کو اپنے دل اور ذہن کے ساتھ گہرے طور سے کلام کرنے دیں اور اپنے دِل کو عبرانی شاعر کے ساتھ سوچنے دیں۔ جب آپ پُرانے عہد نامے کی شاعری کو پڑھتے ہیں تو آپ کو اس کے بارے میں سوچنے، دُعا کرنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے وسیلے سے مِلنے والا پھل اس ساری کوشش سے کہیں زیادہ ہے۔